پڑھا کر موقوف کردیا اورفرمایا کہ اب عربی شروع کرو، میرااندازہ ہے کہ یہ ساری کتابیں سات آٹھ ماہ میں ہوئی تھیں ، وہ بھی اس طرح کہ مولانا کی مصروفیات کی وجہ سے ناغہ بہت ہوتاتھا۔ ویسے میری حاضری میں کبھی فرق نہیں آتا، میں دونوں وقت پابندی سے حاضر ہوتا۔
میزان شروع کرائی ،عام طور سے دستورہے کہ کتاب پوری زبانی یاد کرائی جاتی ہے لیکن مولانا نے مجھے اس کا پابند نہیں کیا،میں قواعد کو اپنے لفظوں میں محفوظ کرلیتا،ان کی مشق کرلیتا،انھیں مولانا کو سنادیتا مولانا کچھ سوالات کرلیتے انھیں اطمینان ہوجاتا،توآگے سبق پڑھادیتے۔ مجھے ساری میزان میں گردان یاد کرنے میں بہت دشواری ہوئی فعل ماضی کے چودہ صیغے مولانا کاحکم تھا کہ ایک سانس میں پانچ مرتبہ دہرانے کے بقدریادکرو،مجھے رٹنے سے فطری طور پر بُعد ہے، بہت محنت سے رٹتاتھا مگر ایک سانس میں پانچ مرتبہ توکیا پانچ سانس میں ایک مرتبہ بھی پورانہیں کرپاتاتھا،پورے تعلیم کے دوران مولانا نے اس پر مجھے بہت لتاڑا ہے، ایک ہفتہ میں کسی طرح ماضی کی گردان یادہوئی ،اس وقت میرے اوپر مایوسی کی کیفیت طاری ہوگئی تھی میں باربار سوچتاتھا کہ میں پڑھ نہیں سکوں گا، خود مولانا کا حال یہ تھا کہ وہ گرد انتے تھے تو نہ کہیں اٹکتے تھے ،نہ بھٹکتے تھے، بس ایک روانی سی روانی رہتی تھی، بہرحال ایک ہفتہ کے بعد تعلیم کی گاڑی حسب معمول لائن پر آگئی ،پھر میزان بہت جلد ختم ہوگئی ، منشعب شروع ہوئی، اس کے ساتھ نحو میر کابھی آغاز ہوا،نحو میر بھی رٹتانہیں تھا،بس قواعد اوران کی مثالیں ذہن نشین کرلیتا،اورانھیں سنادیتا،منشعب ختم ہونے کے بعد پنج گنج پڑھی ، نحو میر ختم ہوتے ہوتے رمضان کا مہینہ آگیا، اورمولانا نے اسباق موقوف کردئیے، صرف میں تو عربی اول کے معیار کے مطابق درک حاصل ہوگیا،مگر نحومیرمیں کمزوری رہ گئی، شعبان شروع ہونے والاتھاکہ مولانا نے فرمایاکہ عربی ادب کی کوئی کتاب پڑھ لینی چاہئے ، پھر انھوں نے اپنے پاس سے ایک کتاب نکالی، جس کی زیارت نہ اس سے پہلے کبھی ہوئی اورنہ اس کے بعد کبھی ہوئی، اس کا نام تھا’’التھجی والمطالعہ‘‘ ہلکی پھلکی کتاب تھی،مگر اس کا معیار دروس الادب کے دونوں حصوں سے بلند تھا،اس کی معتد بہ مقدار انھوں نے