کرتے تھے انھیں بہت شوق سے پڑھاکرتاتھا، نظام نے دوخاص نمبر بھی بہت وقیع شائع کئے تھے۔ایک تصوف نمبر اوردوسرا قرآن نمبر تصوف نمبر پہلے شائع ہواتھا اس کا میں نے باربار مطالعہ کیا ،طبیعت نے اس کا بہت گہرا اثر قبول کیا تھا۔
اس وقت مرادآباد سے حرمین نامی ایک ماہنامہ نکلتاتھا، اس کی جلدیں بھی مولانا کے یہاں تھیں ،اس کا معیار زیادہ اچھا نہ تھا مگر مجھے تو پڑھنے کی دھن تھی جوملتا ،پڑھتاچلاجاتا۔ میرٹھ سے قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی ؒ ایک رسالہ ’’الحرم ‘‘نکالتے تھے،اس کے بھی کچھ شمارے مل گئے تھے، یہی چاروں اس وقت کی کائنات تھی، اورمیں انھیں میں مسلسل ڈیڑھ سال تک گم رہا۔
آمدنامہ ختم ہوا،فارسی کی پہلی مکمل ہوئی ایک پرانی کتاب صرف فارسی میرے گھر پر تھی اس میں صرفی قواعد لکھے تھے۔مولانا نے اسے بھی پڑھایا ، اس کے بعد مولانا نے گلستاں شروع کرادی۔اس کا دیباچہ بہت دشوارہے ،مگر مولانا کی عمدگی ٔتعلیم نے اسے دشوار نہیں محسوس ہونے دیا بہت جلد قابو مل گیا، چند دنوں کے بعد بوستاں شروع کرادی ،طریقہ وہی تھا جو پہلے میں ذکر کرچکاہوں اس دوران کبھی کبھی مولانا عزیز الرحمٰن صاحب سے بھی دوایک سبق پڑھے گلستاں کے غالباً دویاتین باب ہوئے تھے کہ گاؤں کے مکتب میں ایک نئے فارغ التحصیل عالم مولوی ممتازاحمدصاحب مدرس ہوکر آگئے،یہ رشتے میں مولانا کے بھتیجے لگتے تھے مجھ سے مولانا نے فرمایاکہ میرے پاس وقت کم رہتاہے بوستاں توتم مجھ سے پڑھو اورگلستاں مدرسہ میں جاکر مولوی ممتازاحمدصاحب سے پڑھ لیا کرو۔ مجھ پر یہ حکم گراں گزرا،مجھے یہ بھی ڈر ہواکہ کہیں مجھے مدرسہ میں باقاعدہ بیٹھنے کا حکم نہ دے دیں ،مگر انھوں نے ایساکوئی حکم نہیں دیا۔ میں مدرسہ میں جاتا ،مولوی صاحب سے گلستاں کا سبق پڑھتا اور پھر مولانا کے گھر واپس آجاتا،اورمعمول کے مطابق رہتا مولوی صاحب نے سات باب تک کتاب پڑھائی ، آٹھواں باب نہ جانے کیوں نہیں پڑھ سکا ،مولانانے حکم دیاکہ مالابدمنہ بھی انہیں سے پڑھ لو،چنانچہ وہ بھی پڑھ لی یہ کتاب پوری پڑھی ،بوستاں مولانا نے چار باب