رسالے اورکچھ کتابیں خوب پڑھیں جن کے تأثرات اب تک میری زندگی ،اورمیرے ذہن میں موجود ہیں مولانا کے صاحبزادے مولانا عزیزالرحمٰن صاحب جو ابھی حال میں دیوبند سے فارغ ہوئے تھے ،اور اس وقت جہاناگنج میں مدرس تھے انھیں امتحان کے انعام میں سوانح قاسمی ملی تھی، یہ اس کی دوسری جلد تھی ، پہلی جلد وہاں نہ تھی ، اسی دوسری جلد کو میں پڑھتارہتا اتنی دلچسپ تھی کہ ختم ہوتی تو دوبارہ شروع کردیتا، میراخیال ہے کہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں میں نے اسے دس مرتبہ پڑھا تھا ، اس کے مضامین مجھے سب یاد ہوگئے تھے۔
مولانا کے طاق پر ترجمہ شیخ الہند مع فوائد عثمانی بھی تھا، میں اسے بھی پڑھتا رہتا، ترجمہ پورا پڑھنے کی توفیق تو نہ ہوتی، اس لئے کہ ترجمہ کی زبان سے میں مانوس نہ تھا، لیکن تفسیر عثمانی بہت پڑھتاتھا، ان دونوں کا اثر میرے دل پر غیر معمولی ہوا۔
اس زمانے میں کانپور سے ماہنامہ نظام نکلاکرتاتھا، اس کے خریدار والد صاحب بھی تھے اورمولانا بھی، اس کے بہت سے شمارے وہاں تھے،حالانکہ جب وہ آتا تھا اسی وقت میں پڑھ لیاکرتاتھا لیکن جب یہاں زیادہ مقدار میں دیکھاتو انھیں بھی پڑھا کرتا، اس میں ایک سلسلہ مضمون قسط وار مولاناعبدالرحمٰن صاحب کامل پوری صدر المدرسین مدرسہ مظاہرعلوم سہارن پورکا ’’اسبال ازار‘‘ کے موضوع پر شائع ہورہاتھا،کہ ٹخنے سے نیچے لنگی یا پاجامہ لٹکانا جائز نہیں ہے۔ یہ مضمون کئی قسطوں میں نکلا میں سب پڑھ چکاتھا، ایک دن دادامرحوم نے کسی کی لنگی ٹخنے سے نیچے دیکھی تو اس پر خفا ہونے لگے ،میں نے ان سے مضمون کا تذکرہ کردیا، انھوں نے کہا مجھے پڑھ کر سناؤ ،میں نے بالاستیعاب اسے پڑھا،وہ بہت خوش ہوئے متأثر ہوئے اورمجھے تاکید کی کہ دیکھو لنگی کبھی ٹخنوں سے نیچے تک نہ جائے ،یہ بات میرے دل میں اس طرح جمی کہ کبھی بھول سے بھی لنگی یاپاجامہ ٹخنوں سے نیچے نہیں جاتا اگر کبھی جلدی میں سوتے وقت ایساہوجاتاہے تو طبیعت بے چین ہوجاتی ہے۔
نظام میں حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی مدظلہ(۱) کے فتاوی شائع ہوا
------------------------------
(۱) حضرت مفتی صاحب کا۱۷؍ ربیع الآخر ۱۴۱۷ھ مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۹۶ء کو افریقہ میں انتقال ہوگیا۔