وہ زیادہ نیک تھا، وہ اس وقت پنج وقتہ نماز کا پابندتھا،میری نمازوں میں ناغہ ہوتارہتاتھا لیکن کچھ دنوں کے بعد اس نے یہ تعلیم بھی ترک کردی۔
مولانا کے گھر میری تعلیم کا طریقہ بھی کچھ نادر ہی تھا ،میں مدرسہ کے وقت تک ان کے گھر پہونچ جاتاتھا ،ان کے دومکان تھے ایک رہائشی مکان تھا ،اورایک احاطہ کہلاتاتھا، احاطے میں بھی چند کمرے بنے ہوئے تھے اس میں مولانا کے بہت بوڑھے اوربزرگ والد حاجی عبدالغفور صاحب رہتے تھے،حاجی صاحب باوجود بڑھاپے کے شدت کے نماز باجماعت کے پابندتھے، سب سے پہلے مسجد پہونچتے تھے مزاج میں قدرے تندی تھی، حضرت تھا نوی علیہ الرحمہ کے غالباً شاگرد تھے، اورا ن سے بیعت بھی تھے، ہم بچے ان سے بہت ڈرتے تھے جب وہ مسجد پہونچ جاتے تو جو بچے نماز نہ پڑھتے، ادھر سے گزرتے بھی نہ تھے، میرے لئے ایک بڑامجاہدہ ان کا سامنا کرناتھا ،حالانکہ انھوں نے مجھے کبھی نہ ڈانٹا ،نہ جھڑکا، مگر رعب ہمہ وقت چھایارہتا، مولانااس وقت ناشتہ کرکے کرگہہ میں کپڑا بننے کیلئے بیٹھ جایاکرتے تھے،مجھے حکم تھاکہ آؤں تو جا کر ان کو اپنی صور ت دکھا دوں ،سلام کرلوں ، اورپھر احاطہ میں آکر رہوں وہ جب مناسب سمجھیں گے آکر پڑھادیں گے، کرگہہ میں بنتے ہوئے انھوں نے کبھی نہیں پڑھا یا میں یہی کرتا،ان کو سلام کرکے احاطہ میں بیٹھ کر سبق یادکرتا سبق یاد ہوجاتا، تومیں طاق پر رکھی ہوئی کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھتارہتا۔اس گھر میں چار طاق تھے ، چاروں پر مختلف چھوٹی بڑی کتابیں دینی رسائل، اوربعض اخبارات رکھے ہوئے تھے میں مولانا کے آنے تک انھیں میں مشغول رہتا،اطلاع کے تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد مولانا تشریف لاتے، میری ایک نگاہ ہمیشہ دروازے کی طرف لگی رہتی ،جیسے ہی مولانا کی آہٹ محسوس ہوتی میں خارجی کتابیں بندکرکے طاق پر رکھ دیتا، اوردرسی کتابیں پڑھنے لگتا، ڈرتاتھا کہ دیکھ لیں گے تو خفا ہونگے ،بیٹھتے ہی سبق سنتے پھر سبق پڑھا تے ،دونوں سبق کے سننے اورپڑھانے میں آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت نہ لگتا۔پڑھا کر وہ چلے جاتے میں تھوڑی دیر پڑھے ہوئے سبق کو دہراتا اورپھر خارجی کتابوں میں منہمک ہوجاتا اس دوران میں نے چند