پڑھنے لگاتھا ۔ میں جب اس کے پاس پہونچا تو وہ برش سے ایک گائے کی تصویر بنارہاتھا ۔ میں نے کہاکہ یہ کیاکررہے ہو ،کہنے لگاکہ پکچر بنارہاہوں ، میں نے پوچھا کہ کیا یہ تصویر بنانی پڑتی ہے اس نے کہا کہ اسکول میں تویہ ضروری ہے میں نے اس سے کہاکہ تصویر بنانی توحرام ہے ، دوزخ کے کھٹکا میں حدیث ہے کہ جوکوئی جاندار کی تصویر بنائے گا ،اسے قیامت کے دن مجبور کیاجائے گا کہ اس میں روح ڈالے، حضوانے تو اس سے منع کیاہے ۔ یہ دیکھ اورکہہ کر میں گھر آیا اوروالد صاحب سے ساری صور ت حال بتائی ،اورمیں نے انگزیزی پڑھنے سے صاف انکار کردیا ، والد صاحب میری بہت دلداری کرتے تھے ،انھوں نے خوشی ظاہر کی اوررات کو مغرب کے بعد حافظ احمد کریم صاحب مرحوم کے گھر جب سب لوگ جمع ہوئے میں بھی وہاں حاضر تھا ،والد صاحب نے مولانا عبدالستار صاحب سے ساری بات کہی ،مولانا بہت خوش ہوئے انھوں نے فرمایاکہ آمد نامہ اورفارسی کی پہلی دے کر اسے کل میرے گھر بھیج دو ،میں اسے پڑھادوں گا، مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ، مولاناعبدالستارصاحب بہت ذی استعداد عالم تھے ،عرصہ تک انھوں نے مدرسہ میں پڑھایاتھا ، عربی کی کتابیں بھی وہ خوب پڑھا چکے تھے میرے والد صاحب نے ان سے پڑھا تھا مگر میں نے جب سے ہوش سنبھالا، انھیں پڑھاتے ہوئے کبھی نہیں پایا ان کے پڑھانے کاشہرہ عام تھا، مگر تدریس موقوف ہوچکی تھی وہ اس وقت مدرسہ کے ناظم تھے بچے سب سے زیادہ انھیں سے ڈرتے تھے ،جن بچوں کو فارسی پڑھنی ہوتی تھی انھیں مولوی محمدیوسف صاحب مرحوم پڑھاتے تھے ،اب جو خلاف توقع مولانا عبدالستار صاحب نے فرمایا کہ میں پڑھاؤں گا تو بہت خوشی ہوئی۔
دوسرے روز میں فارسی کی پہلی اورآمدنامہ لیکر مولانا کے گھرپہونچا ،مولانا نے دونوں کتابیں شروع کرادیں ۔مولانا کے پڑھانے کاانداز بہت اچھا تھا ۔ایک ماہ میں آمدنامہ پوری ہوگئی۔ اور اسکے کچھ دنوں کے بعد فارسی کی پہلی بھی پوری ہوگئی میراوہ ساتھی جسے میں نے تصویر بنا تے ہوئے دیکھا تھا اس نے بھی اسکول کی تعلیم ترک کردی اورفارسی اس نے مولوی محمد یوسف صاحب مرحوم سے پڑھی،کچھ مہینوں کے بعد وہ میرے ہی ساتھ پڑھنے لگا