دل ہی دل میں اللہ سے دعاکرتا رہتا تھا کہ بارالٰہا ! میرے عیبوں کو چھپائے رکھئے۔
ولید پور کے مولانا شکراللہ صاحب مرحوم بہت کثر ت سے آتے تھے اوربہت اچھی اورعلمی باتیں کرتے تھے، ان کی ظرافت میں بھی علم ہوتاتھا ،مجھے جیسے ہی معلوم ہوتاکہ وہ آئے ہیں زیادہ تر وہ میرے استاذ مولانا عبدالستار صاحب مدظلہ کے گھر آتے تھے ،میں فوراً پہونچتا تھا ، وہ چونکہ خیرآباد میں مدرس تھے، اس لئے ان کا آنا عموماً جمعرات کو دوپہر میں یا جمعہ کے دن ہوتا، اس وقت ہمارا مکتب بھی بند ہوتا اس لئے موقع خوب ملتاتھا۔
میری کثرت حاضری کی وجہ سے ان بزرگوں نے مجھے پہچان لیاتھا ،مجھے یاد تونہیں ہے لیکن کئی حضرات نے گاؤں کے دوسرے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون لڑکاہے، جو ہر وقت یہیں ڈٹارہتاہے ،میرے استاد حافظ احمد کریم صاحب مرحوم بتاتے کہ اس لڑکے میں بوڑھی ہڈی ہے ،زیادہ تر بوڑھوں ہی کی مجلس میں رہتاہے ۔حضرت مولاناقاری ریاست علی صاحب علیہ الرحمہ نے کئی مرتبہ مجھے بوڑھی ہڈی والاکہہ کرپکارا۔
میں گھر کے کاموں کے سلسلے میں کام چور مشہور تھا، میں پڑھتاہوتااورمیری بہنیں کسی کام کی فرمائش کرتیں ،میں ٹال جاتا،وہ خوب خفاہوتیں اوراگر کوئی عالم باہر کا آجا تا توکہتیں کہ اب اس کا گھر میں پتہ نہیں رہے گا،فلاں مولانا صاحب آگئے اب یہ وہیں پڑارہے گا ، بس کھانے کا وقت ہوتاتو میں گھر بھاگ آتا۔
مجھے اسی زمانے میں بہت سے علماء کے نام اوران کے اجمالی حالات معلوم ہوگئے تھے ،میں درجہ پرائمری پانچ میں تھاکہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پورسے جلسہ کا اشتہار آیا۔اس میں پہلا نام مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی علیہ الرحمہ کاتھا، مجاہد ملت سے ان کی تقریروں سے، ان کے زوربیان سے میں واقف ہوچکاتھا ،میں نے والدصاحب سے اصرارکیاکہ میں مبارک پور جلسے میں جاؤں گا، انھوں نے ازراہ شفقت انکار نہیں کیا بلکہ خود اپنے ساتھ لے کر مبارک پور گئے، مبارک پورہمارے گاؤں سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اس وقت سواریاں بہت کم تھیں ،زیادہ لوگ پیدل یا سائیکل سے یہ راستہ طے کرتے