کو ساتھیوں کے سامنے دہرانے لگتا، اس وقت سب کھیل کود بھول کر باتو ں کے سننے میں لگ جاتے ،میں بھی باتوں میں باتیں نکالتا جاتا،بعد میں یہ طریقہ میں نے مستقلاً اختیار کرلیاتھا کہ جو کچھ پڑھتاتھا سے اپنے دوستوں کے درمیان دہراکریاد کرلیاکرتاتھا ا،س سے مجھے بہت نفع پہونچاہے۔
بچپن ہی سے میرے دل میں علماء اوربزرگوں کی قدرومنزلت ہے، گاؤں میں اس وقت مولوی کم تھے ،بعض علماء باہر سے کبھی کبھی تشریف لاتے تو میں برابر ان کے ساتھ رہتا، ان کی باتیں سنتا۔مبارکپور سے مولانا عبدالباری صاحب مرحوم اورمولانا عبدالستار صاحب مرحوم زیاد ہ تشریف لاتے،کبھی مولانامحمد عثمان صاحب ساحرؔ مرحوم اورمولانا بشیر الدین مرحوم بھی آتے تھے۔مئو سے مولانا قاری ریاست علی صاحب علیہ الرحمہ بھی تشریف لاتے ،یہ حضرات جب آجاتے تو میں تھوڑی دیر کیلئے بھی ان سے جداہوناگوارانہیں کرتا ۔ایک مرتبہ مولانا ابوالقاسم صاحب شاہجہاں پوری مرحوم کو دعوت دی گئی، وہ تشریف لائے اوردودن تک ان کا قیام رہا، میں ان دودنوں میں کھانے پینے سے بے پروا ہو کرانھیں کے ساتھ لگا رہا، گرمی کاموسم تھا، باوجود بہت چھوٹاہونے کے ان کے پیچھے کھڑاہوکر پنکھا جھلتاتھا، میں اکثر ان بزرگوں اورعلماء کے قریب رہنے کی کوشش کرتا مگر پیچھے رہتا،سامنے کم آتاتھا ، کچھ اس میں میری محجوبانہ طبیعت کا بھی دخل تھا، اورکچھ ایک عجیب وغریب خیال تھا اس وقت کے لحاظ سے اسے عجیب ہی کہاجائے گا جبکہ میں اپنی عمر کی پہلی دہائی میں تھا ،چونکہ رسول اللہ ا کی سیرت ، صحابہ کے حالات اوربزرگوں کی زندگیاں اپنی استعداد بھر پڑھ چکاتھا ،اوران علماء کے پاس بیٹھ بیٹھ کر بہت کچھ سن چکا تھااس لئے میرے طبیعت میں یہ بات راسخ تھی کہ بزرگوں کو کشف ہوتاہے، یہ بہت سی باتیں بے بتائے بھی جان جاتے ہیں ، تو میں ڈرتارہتا تھا کہ کہیں یہ لوگ میری وہ غلطیاں اورمیرے وہ معائب جان نہ لیں اوران پر ٹوک نہ دیں جنھیں اپنی دانست میں صرف میں جانتا تھا اورانھیں چھپانے کی حتی الامکان ہر کوشش کرتاتھا ، اگرچہ ایسا تجربہ کبھی ہوانہیں ،مگر ڈر ہمیشہ غالب رہتاتھا اسی لئے سامنے آنے سے گھبراتا ۔اور