سے یہ بات ذہن میں خوب پختہ ہوگئی تھی کہ جب کوئی بچہ مرجاتاہے تو وہ سیدھا بے کھٹکے جنت میں جاتاہے اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ،اوربالغ ہونے کے بعد طرح طرح کے گناہوں میں گھر جاتاہے ،توجنت میں اس کاابتدائی داخلہ مشتبہ ہوجاتاہے، اس بات نے دل میں اشتیاق پیداکیا کہ بچپن مین ہی موت واقع ہوجائے اس کیلئے دعائیں کیاکرتا،جب بیمارہوتاتوخوش ہوتاکہ شاید اسی میں مرجاؤں ، اور سیدھا جنت میں پہونچ جاؤں ،بیماری میں جنت کا تصور خوب رہتا،باربار بیمار پڑنے اوردعائیں کرنے کے بعد بھی جب مو ت نہیں آئی تو سوچاکہ کسی خاص وقت میں دعا کرنی چاہئے ۔شب برأت آئی،استاذ محترم مولانا عبدالستار صاحب نے تقریر میں اس کی فضیلت بیان کی کہ اس رات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ، مولانااحمدسعیدصاحب دہلوی کی کتاب ’’پردہ کی باتیں ‘‘ میں بھی شب برأت کی برکت پڑھی تھی ،مغرب کے بعد میں نے اپنے بھائی محمد بلال سے اس کا ذکر کیا کہ آج چلو مرنے کی دعاکریں کہ نابالغی ہی میں ہم لوگ مرجائیں ،بالغ ہونے کے بعد نہ جانے کس مصیبت میں پڑیں ،بلال نے میری تجویز پر صاد کی،ہم دونوں بانس کی سیڑھی سے کوٹھے پر چڑھ گئے اورسیڑھی کھینچ لی کہ کوئی دوسرانہ آجائے اورہماری دعامیں خلل پڑجائے، کیونکہ عزم تھا کہ آج اس دعاکوقبول کرواہی لیناہے۔
پہلے دورکعت نمازپڑھی گئی اس کے بعد دعاکے تمام آداب برتے گئے اپنی زبان میں اللہ کی خوب تعریف کی ،دہرادہراکرخوب درود شریف پڑھا ،پھر خوب گریہ وزاری کے ساتھ دعاشروع کی۔۔۔۔۔ واقعی ہم دونوں آنسووں سے رورہے تھے۔۔۔۔۔ بڑی دیر تک ،کس بات کی ؟ نابالغی میں مرنے کی ! پھر یقین تھا کہ ہم دونوں جلد ہی مرجائیں گے اس وقت ڈر کی وجہ سے کسی کو اس دعاکے بارے میں بتایا نہیں تھا ،مگر اب تک دونوں جی رہے ہیں اورمصائب میں مبتلا ہورہے ہیں نہ جانے کیاہو! اللہ تعالیٰ درگزر کا معاملہ فرمائیں ۔
میں نے عرض کیاہے کہ مجھے کھیل سے دلچسپی نہیں تھی اپنے ساتھیوں میں مبتلا ہوکر کھیل میں شریک ہواہوں ،مگر کبھی ایسابھی ہوتاکہ میں کوئی موقع پاکر اپنی پڑھی ہوئی معلومات