بے تحاشا دوڑا، اس کے بعد زندگی کی جن جن راہوں پر چلاہوں ،اپنے ارادہ سے نہیں خارجی دباؤ اور حالات کے تجاذب نے ان پر مجھے ڈال دیا، اوراب تک اسی طرح چلاجارہاہوں ۔ ظاہر ہے کہ ایسی زندگی دوسروں کیلئے سبق آموزنہیں ہوسکتی ،یہ حقیقت میں توکاہلی اوربے حسی ہے، مگر اب پڑھ لکھ لینے کے بعد اپنے جی کو بہلانے کے لئے اسے قناعت ،تفویض وتوکل اور رضا بالقضاء وغیرہ خوشنما عنوانات دے لیتاہوں ۔خیر یہ الگ موضوع ہے ،کہنا یہ چاہتاتھا کہ میری زندگی ایک بدوی اوردیہاتی زندگی تھی،معمولی کھاناکھانا،معمولی لباس پہننا، جہاں تہاں پڑارہنا،البتہ کچھ باتوں کالحاظ رہتا اوریہ خاندانی اثر تھا، گاؤں دیہات میں بڑوں کی بھی اوربچوں کی بھی زبان عموماًاچھی نہیں ہوتی، تعلیم کی کمی ،پڑھے لکھوں کی صحبت سے دوری، اوردوسرے اسباب وعوامل کی وجہ سے دیہاتی طرزکلام جو ہوتاہے وہ توخیر ہے ہی ۔ زبانوں پر گالیاں بہت چڑھ جاتی ہیں ، بات بات پر زبان سے بے تکلف گالیاں ابلتی ہیں میرے خاندان میں گالیاں بکنے والاکوئی فرد نہ تھا،حالانکہ گردوپیش میں ایسے افراد کی کمی نہ تھی ،گھر میں دادا اوربڑے والد کا تعلق ایک بزرگ سے تھا، اس کے علاوہ کچھ اوپر سے بھی اچھے حالات تھے، اس لئے اس بلا سے ہماراخاندان محفوظ تھا ،میری یاد میں صرف ایک بار میرے منہ سے گالی کاسب سے ہلکا ایک لفظ نکل گیاتھا، تو میں کئی دن تک شرمساررہا۔
بزرگوں سے تعلق کی بات آئی تو ایک بات اوریاد آگئی وہ بات میرے لئے بہت خوشگوار ہے گو کہ اب تک اس کا انتظار ہی ہے مگر کہتے ہیں کہ انتظار میں بھی حظ ہے میں بھی منتظر ہوں ۔
میرے دادا اورمیرے بڑے والد اورخاندان کے بعض اوربزرگوں کا تعلق کہنڈہ کے ایک نقشبندی شیخ حضرت حافظ حامد حسن صاحب سے تھا، ان کے تعلق کی وجہ سے یہ دونوں حضرات ذکروشغل اوروظائف ومراقبہ میں لگے رہتے ،مجھے ہوش ہواتوحافظ صاحب کا وصال ہوچکاتھا ان کے خلیفہ حضرت صوفی عبدالرؤف صاحب مئوی علیہ الرحمۃ ہمارے یہاں آتے تھے، اوربڑے والد ان کے یہاں جایاکرتے تھے، میں نے انھیں بچپن میں کئی