پوداجہاں اُگ آتا کچھ دنوں کے بعد وہاں کی خالی زمین پورے طور سے بھرجاتی، جب ہواتیزچلتی تو یہ پودے خوب لہراتے ،میراکھیل انھیں پودوں پر ہوتا،بانس کی ایک پتلی سی چھڑی لیکر میں بھڑبھڑوا سے بھرے ہوئے کسی احاطہ میں چلاجاتا ، وہاں مکمل تنہائی ہوتی ، کیونکہ ان کا نٹوں سے الجھنے کون آتا،میں ایک کنارے کھڑاہوجاتا اورزور سے پکارتا، پڑھو، اگر ہواچلتی ہوتی اورپودے جھومتے ہوتے تو میں فرض کرلیتا کہ سب پڑھ رہے ہیں ، میں اس منظر سے خوش ہوتا۔شاباشی کے کلمات کہتا ،بلال ساتھ میں ہوتاتو اس سے کہتاکہ دیکھو کتنی محنت سے پڑھ رہے ہیں ، اوراگر ان کا جھومنا بند ہوجاتاتو میں چھڑی سے انھیں مارنا شروع کردیتا ،سب کی گردنیں جھولتی چلی جاتیں اورکہتاجاتاکہ نہیں پڑھوگے تو یہی سزاملے گی ،آدھ گھنٹہ پون گھنٹہ اس مشغلہ میں گزرجاتا ۔کبھی مارنا کبھی ڈانٹنا ،کبھی چمکارنا،کبھی ترغیب دینا، جب واپس آتا تو کہہ کرآتاکہ اچھافلاں وقت پھر آؤں گا سبق یاد کرکے رکھنا، اگر ذرا بھی غلطی ہوئی تو پھر پٹائی ہوگی۔یہ مشغلہ مدتوں جاری رہا ۔بھڑبھڑوا کا موسم ختم ہوجاتا اوراس کے پودے سوکھ کر ختم ہوجاتے تو میرے اوپر ایک بے کیفی سی طاری ہوجاتی اورجب وہ ہرے بھرے ہونے لگتے تو مجھ پر پھر وہی نشاط طاری ہوجاتا۔
جس وقت میں نے ہوش وادراک کی آنکھ کھولی ،اس وقت مجھے دولت وغربت کا کوئی احساس نہ تھا۔اپنے گھر میں کھانے کو بافراط مل جاتاتھا ،کئی کئی کمروں کا مکان تھا،پہننے کیلئے کپڑے بھی تھے،اس لئے میں نہیں کہہ سکتاکہ غربت میں پلاہوں ،لیکن اب جو حالت دیکھتاہوں تو احساس ہوتاہے کہ غربت چاہے نہ رہی ہو لیکن کھانے پینے ،پہننے اوڑھنے اور مکان وغیرہ کی ایسی سادگی تھی کہ آج اسے غربت ہی کہا جائے گا ۔اس وقت توکچھ شعور نہیں تھا لیکن اب دیکھتاہوں تو مزاج میں سستی اورناکارگی کچھ عام مقدارسے زایدہی ہے ۔ اس لئے مستقبل میں کچھ بننے کا حوصلہ وخیال شاید نہیں آتا تھا ، اور کبھی اس کا خیال آتا بھی تو وسوسہ سے ترقی کرکے عزم نہیں بنتاتھا، کاہل اورنکمی طبیعت ہے،بے حس اورجامد!میں نے شاید اپنے ارادے سے کچھ بننے کی کوشش نہیں کی ،فطرت نے مطالعہ کی راہ پر ڈالا میں اس پر