مجھے کھیل کود کاذوق بالکل نہ تھا ۔میرے ساتھی اگر مجبورنہ کرتے تو شاید میں کسی کھیل میں حصہ نہ لیتا۔لیکن ساتھیوں کو یہ کب گواراہوتا کہ ان کاکوئی ساتھی کھیل سے الگ رہے ،کئی کھیل میں میری شرکت رہی مگر ہر ایک میں پھسڈی رہا،کبڈی بھی کھیلی ،اورناکام رہا ،فٹبال میں بھی شریک ہوا مگر گول کیپری کے علاوہ اورکچھ نہ کرسکا ،کیونکہ میں دوڑ تے ہوئے پاؤں سے گیند کو مار نہیں پاتاتھا، گیند کہیں ہوتی اورمیرا پاؤں کہیں مارتا ،والی بال کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی ،رات میں بچے ایک کھیل کھیلتے تھے اس کا نام ’’گُرکھیت‘‘ تھا، اس میں بھی شریک ہوا ہوں ، لیکن عدم مناسبت کایہ حال ہے کہ اب اس کی حقیقت تک بھول گیاہوں ، میرے کئی ساتھی چڑئیے کے شکار کے شوقین تھے بعض مچھلی مارتے تھے ، کبھی کبھی زبردستی مجھے بھی تالاب پر یاکھیتوں اورباغوں میں لے جاتے ،مگر میری برکت ایسی ہوتی ، جب جب میں ساتھ گیا شکار سے عموماً محرومی رہی، ایک بار پتنگ اڑانے کی مشق کئی دن تک کرتا رہا، مگر بالکل ناکام رہا ، پریتی ہاتھ سے رکھ دی اورپھر کبھی نہیں اٹھائی۔
البتہ ایک کھیل بہت شوق سے کھیلتا رہا اوریہ کھیل ایساتھاکہ اس میں کوئی میراساتھی نہ تھا صرف محمد بلال میراساتھ دیتا،یہ کھیل مدتوں چلتارہا درجہ پانچ پڑھنے تک اس کا سلسلہ جاری رہا ،اب سناؤں گا تو پڑھنے والے مسکرائیں گے ،مگر ایک زمانے میں وہ کھیل میرے حواس پر مسلط تھا، مکتب کی چھٹی ہوتی تو میں عموماً پڑھنے میں لگا رہتااوراگر کوئی چیز مجھے اس سے ہٹاتی تھی تو وہ یہی کھیل تھا۔
اب سنئے وہ کھیل کیاتھا؟ میرے بچپن میں گاؤں کی آبادی زیادہ پھیلی ہوئی نہ تھی، بہت سی زمینوں کی احاطہ بندی تو تھی مگر ان میں کوئی عمارت نہیں تھی،بعض بنجر زمینیں ادھر ادھر خالی پڑی تھیں ۔ان احاطوں میں اورخالی زمینوں میں ایک مخصوص طرح کے خاردار پودے بہت زیادہ اگ آتے تھے،اب بھی اگتے ہیں مگر ان کیلئے اب زمین تنگ ہوگئی ہے ، یہ پودے کمر تک آتے تھے،ان میں زرد رنگ کے پھول عجب بہاردکھاتے بس ایک تنا ہوتا اس پر بھی کانٹے ہوتے اس کے پتوں پربھی کانٹے ہوتے ہم لوگ اسے ’’بھڑ بھڑوا ‘‘ کہتے ، اس کاایک