گے۔میں وقت کا انتظار کرتے کرتے سوجاتا اوروالد صاحب اٹھ کر عشاء کی نماز پڑھنے چلے جاتے ، بڑامعصوم ہوتاہے بچپنا۔
مجھ سے محبت کرنے والے کئی ایک تھے،میری چھوٹی پھوپھی،بالکل ماں کی طرح چاہتی تھی، پھوپھی کی جب شادی ہوگئی اوروہ خیرآبادجابسی،تواکثر میں بھی پیچھے پیچھے خیرآباد چلاجاتا،میرے دل میں محبت کا گھاؤ بہت گہرالگتاہے ، بڑی مشکلوں سے خیرآباد مجھ سے چھڑایاگیا، اب اس کی جگہ بڑی بہن نے لے لی، نانیہال میں نانی اورخالہ نے بہت دلار اورپیار کیا،ان سب کی مہربانیاں دل کی گہرائی میں پیوست ہیں ۔ اب یہ سب خداکے حضور پہونچ گئی ہیں ، اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائے ۔ اب صرف والد صاحب کا دم رہ گیاہے اللہ تعالیٰ ان کے سایۂ رحمت کو باقی رکھے۔(۱)
میرے خاندان میں علم کاکوئی چرچانہ تھا،بس قرآن شریف ناظرہ اوراردوکی چند کتابیں پڑھ لینا منتہائے کمال تھا، اگر کسی نے بہشتی زیور پڑھ لی توگویا وہ عالم ہے ،فقیہ ہے ، داداکوبہشتی زیور پر عبورتھا، اس لئے مسائل میں مولویوں سے ٹکر لیتے تھے، ناظرہ ان کاخوب رواں تھا ۔قرآن کریم کی تلاوت پابندی سے کرتے تھے حاجی تھے ،میاں جی تھے کیوں کہ نکاح پڑھایاکرتے تھے، ذاکر وشاغل تھے ،حافظ حامدحسن صاحب کہنڈہ ضلع اعظم گڑھ کے ایک صاحب نسبت بزرگ تھے، ان سے بیعت تھے ۔نماز باجماعت کے بہت پابند تھے ، اکثر نمازوں کی امامت بھی کرتے تھے والد صاحب کی تعلیم بھی اتنی ہی تھی، مگر وہ کچھ شاعری بھی کرتے تھے اس لئے پڑھنے لکھنے کاشغل ان کا زیادہ تھا، اس سے زیاد ہ پورے دادیہال اورنانیہال میں علم کا چرچانہ تھا۔
یاد نہیں کب مجھے قاعدہ بغدادی شروع کرایاگیا،البتہ اس کا پڑھنا یادہے ،والد صاحب اور بڑی بہن مجھے پڑھاتی تھی میرے بڑے والد کالڑکا محمدبلال میراہم عمر تھا ۔مجھ
------------------------------
(۱) والد صاحب بھی ۲۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ مطابق ۵؍ جون ۲۰۰۸ء (جمعرات ) کو آغوشِ رحمت میں پہونچ گئے۔رحمہ اﷲ وغفرلہ