سے کیا، وہ ایک ذاکروشاغل بزرگ تھے ۔ انھوں نے بے ساختہ فرمایا کہ ٹھیک ہے وہ چورہوگا ، لیکن کسی چیز کا ؟ علم کا! علم بھی رات کے سناٹے اورتنہائی میں حاصل ہوتاہے ۔اللہ نے چاہاتو عالم ہوگا ۔یہ بات بچپن ہی میں بڑے والد صاحب مرحوم نے بھی اور بڑی والدہ نے بھی متعدد بار مجھے سنائی۔اس وقت اس کا ذکر ہوتاجب میرے پڑھنے کی دھن کی کبھی شکایت ہوتی۔ میری عمر غالباً ڈھائی سال کی تھی یااس سے کچھ زائد رہی ہوگی کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔ مجھے ان کی شکل وصورت یاد نہیں ہے، البتہ یہ یاد ہے کہ والد صاحب گھر کی دہلیزمیں دروازے کے باہر کی طرف باچشم تر کھڑے تھے ،او رمیری نانی اندر کی طرف کھڑی رورہی تھیں ، اورمیں سراپا حیرت بنا کھڑاتھا اس کے علاوہ کچھ یاد نہیں ،جنازہ گھر سے نکلا، نماز جنازہ ہوئی،تدفین ہوئی، اس کا کوئی دھندلا سا نقش بھی ذہن میں نہیں ہے اس وقت سیلاب تھا ، قبرستان غرقاب تھی،مسجد قدم رسول کے پاس تدفین ہوئی تھی۔
پھر بچپن کیساگزرا؟ والد صاحب نے ماں کی شفقت سے نوازا ،دوبہنیں مجھ سے بڑی تھیں ، بڑی کانام سعید النساء اوراس سے چھوٹی کا واجدالنساء نام تھا۔ مجھ سے چھوٹا ایک بھائی غالباً دس ماہ کاتھا اس کا نام ممتاز احمدتھا ۔اب یاد نہیں کہ وہ کتنے دن زندہ رہا ،پھر وہ بھی اماں کے پاس چلاگیا ،ماں کا صدمہ یاد نہیں ،ہاں ممتازاحمد کا صدمہ خوب یادہے، اس کے مرنے کا مجھے بہت رنج ہوا۔والد صاحب میری بہت دلجوئی کرتے تھے میں ہر وقت ان سے لپٹا رہتا تھا، وہ لیٹتے تو میں انھیں کی چارپائی پر رہتا۔ ان کے جسم پر سوار رہتا وہ اس وقت بہت اچھی اچھی باتیں کرتے، میں پوچھتاکہ ممتازکہاں گیا ؟وہ بتاتے کہ جنت میں !پھر جنت کے اوصاف وحالات بتاتے ،وہاں کی راحت کو وہاں کے آرام کو ،وہاں کے میووں ، درختوں ، نہروں اورباغات کا ذکرکرتے ،میں پوچھتاکہ جنت کہاں ہے؟ وہ بتاتے کہ آسمان پر ہے پھر میں غور سے آسمان کودیکھنے لگتا۔مجھے یادہے کہ میں نے اس وقت بارہاچشم تصور سے آسمانوں پرجنت کو دیکھاہے اوراس میں ممتاز کو کھیلتے کودتے اورہنستے دھوم مچاتے پایا ہے،میں والد سے کہتاکہ میں بھی وہیں جاؤں گا، کہتے جب وقت آئے گا تم بھی پہونچ جاؤ