جب کوئی چیز اپنے عروج وارتقاء پر پہونچتی ہے ،اورحسن ورعنائی سے مزین ہوتی ہے تو اس پر نظربد بھی پڑنے لگتی ہے ، اب مدرسہ کا انتظام کچھ ایسے افراد کے ہاتھ میں آیا جن میں وسعت قلبی کے بجائے تنگ دلی کا مادہ زیادہ تھا ، انھوں نے مدرسہ کے تعلیمی واخلاقی ماحول میں خرابیاں پیدا کیں ، بعض بے جا ونامعقول اقدامات کی وجہ سے اساتذہ وطلبہ میں بددلی پھیلائی ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اوپر ایسے الزامات لگائے گئے جسے ناظم مدرسہ سے لے کر مدرسہ کا ہرفرد جانتا ہے کہ ان کا کوئی چھینٹا میرے دامن پر نہیں ہے۔
بہر حال ماحول ایسا گرم کردیا گیا کہ میں نے فتنوں سے بچ نکلنے میں دین ودنیا کی عافیت محسوس کی۔ ‘‘
مولانا نے اپنے اس لگائے ہوئے چمن کو کس دل سے چھوڑا ہوگا ، ان کا دل ہی جانتا ہوگا ؎ میرے دل میں درد بھراہے اتنا ہی تم جانو ہو
دل میں کیسے درد بھرے ہیں درد بھرا دل جانے ہے
بہر حال تقدیر کا لکھا پورا ہوکر رہا ، رمضان ۱۴۳۴ھ میں مولانا نے اپنے قائم کئے مدرسہ سراج العلو م چھپرہ ضلع مئو میں مستقل اقامت کر لی، اور یہ جو ابھی مکتب اور حفظ کے درجات پر مشتمل تھا ، اس کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا، چنانچہ مجھے اور مفتی منظور احمد صاحب کو یہاں لے گئے ، مولانا کے قیام کی برکت سے قرب وجوار کے علاوہ دور دراز حلقوں سے بھی اچھے خاصے طلبہ آگئے ،اوربہت مناسب اور دین کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لائق اساتذہ بھی فراہم ہوگئے ، تعمیرات کی حد درجہ کمی ہونے کی وجہ سے بہت سے طلبہ کو واپس کرنا پڑا ، اور عربی کی دو جماعتیں ہفتم ( مشکوٰۃ شریف) اور ششم ( جلالین شریف) قائم ہوئیں ۔ارادہ یہ تھا کہ جماعتوں کا قیام اوپر کے درجات سے ہوگا، جیسے جیسے وسعت ہوگی بقیہ جماعتیں قائم ہوتی جائیں گی۔اسی دوران مولانا کا حادثۂ وفات پیش آگیا ، جس اﷲ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے مولانا نے تمامتر بے سروسامانی کے یہ قدم اٹھایا تھا اسی کی ذات سے امید ہے کہ ان شاء اﷲ مولانا کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اورمستقبل قریب میں یہ دین اور علم دین کا ایک