دشمنی پیدا ہوگی، اور عاقبت برباد ہوگی ، بس خود کو ایسا بنالو کہ تمہیں لوگ بے کار اور نکما سمجھ کر چھوڑدیں ، اس میں تمہاری تھوڑی سی سبکی محسوس ہوگی مگر اس کا تحمل کرلو ،آئندہ تمہارے حق میں بہتری ہوگی۔
اس سلسلے میں مَیں نے طلبہ کو مثنوی مولانا روم کی یہ حکایت اکثر سنائی کہ ایک شخص تجارت کے لئے اپنے گھر سے نکلا ، اسے ہندوستان آناتھا ، نکلتے وقت اس نے اپنے گھر والوں سے ،عزیزوں سے فرمائش کی کہ اگر کسی کو ہندوستان کا کوئی تحفہ درکار ہو، کوئی چیز پسند ہوتو فرمائش کرے ، میں لاؤں گا ، سب نے اپنی اپنی پسند کی فرمائش کی ، گھر میں ایک طوطا پلا ہوا تھا ، اس نے ازراہ تلطف اس سے بھی دریافت کیا میاں مٹھو! تم بھی کچھ کہو اس نے کہا کہ ہندوستان میں امرودوں کے باغ پر اگر گزر ہوتو میری برادری اور کنبے کے افراد بکثرت ملیں گے ، ان سے میراسلام کہئے گا ،اور انھیں اطلاع کردیجئے گا کہ تمہاری برادری کاایک فرد میرے یہاں پنجرے میں پرورش پارہا ہے ، پھر جو پیغام ادھر سے ملے ، میرا تحفہ وہی ہوگا ۔ اس نے کہا بہت خوب!وہ سفر پر نکلا ، ہندوستان میں شہر در شہر گھومتا رہا ، ایک روز امرودوں کے ایک باغ میں وہ ٹھہرا ہواتھا ، اچانک طوطوں کی ٹائیں ٹائیں سنائی دی، اس نے سر اٹھاکر دیکھا تو پرندوں کا ایک جم غفیر تھا ، اس نے بآواز بلند پکار کر اپنے گھر کے طوطے کاسلام وپیام کہا ، یہ سننا تھا کہ ایک خوبصورت طوطا جھرجھرایا ، کانپا، ٹائیں ٹائیں چیخا،اور گر کر مرگیا ، اس کو بیحد افسوس ہوا کہ ناحق یہ طوطا مرگیا ، ایسا لگتا ہے کہ یہ میرے طوطے کا کوئی محبت کرنے والا تھا ، شاید صدمہ کی وجہ سے مرگیا ،دل میں طے کیا کہ میں اپنے طوطے سے اس واقعہ کو ظاہر نہ کروں گا ، وہ جب لوٹ کر گھر آیا اور خوشی خوشی سب کی فرمائشوں کی تکمیل اور ان کے تحفے پیش کئے ، آخر میں طوطے نے کہا حضور! میرے پیغام کا کیا ہوا؟ تاجر نے آہ سرد بھری اور کچھ معذرت کے کلمات کہے ، طوطے نے اصرار کیا ، اس نے کہا کہنے کی بات نہیں ، کہنے لگا ، نہیں ضرور بتائیے ! آخر میرا کیا قصور ہے؟ سب کے تحفے آپ لائے اور میں ہی محروم رہوں ، اس نے کہا سنو! میں نے تمہارا سلام تمہاری قوم کے افراد سے کہا ، تمہارا پیغام پہونچایا، پیغام کا