سننا تھا کہ سلام کا جواب تو درکنار! ایک طوطا کانپا اور تھرتھرایا اور بے تحاشا گرا اور مرگیا ، اتنا سننا تھا کہ قفس میں یہ طوطا بھی کانپا ،چیخا اور تڑپ کر مرگیا ، تاجر پریشان ہوگیا ، یہ طوطا اس کے گھر کی زینت تھا ، اسے ایک سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ یہ کیا ہوگیا ، اس نے افسوس کرتے ہوئے طوطے کو ہلایا ڈلایا، خوب دیکھا ، اسے یقین ہوگیا کہ یہ بھی دم توڑ چکا ہے ، بہزار افسوس اس نے اسے پنجرے سے نکالا اور ایک گھورے پر لے جاکر پھینک دیا ، پھینک کر ابھی دیکھ ہی رہاتھا کہ اس نے پھر جھرجھری لی اور ایک زقند بھر کر ایک درخت کی ا ونچی شاخ پر جابیٹھا ، اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، وہ شاخ پر بیٹھا اپنی مخصوص بولی بولنے لگا ، تاجر نے چلاکر کہا او دغاباز! یہ کیا تیری حرکت ہے ، میں نے تیری کتنی خدمت کی ، کھلایا پلایا ، تربیت دی ، لیکن واقعی طوطا چشمی اسے کہتے ہیں ، سب احسان فراموش کرکے تو دغا دے گیا ، تو نے دھوکہ دیا، طوطے نے جواب دیا کہ میں آزاد ہوکر فضاؤں میں اڑنے والا پرندہ آپ کی قید میں گرفتار تھا، ایک چھوٹے سے پنجرے میں میری زندگی تنگ تھی، میں نے اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ رہائی کی تدبیر بتاؤ ، میں گرفتار ہوں ، میرے دوست نے اشارے کی زبان میں مجھے بتایا کہ تم اپنی آواز اور حسن نغمہ کی وجہ سے گرفتار ہو ، جب تک تمہارا یہ ہنر باقی ہے ،رہائی نصیب نہ ہوگی، میری طرح مردہ ہوجاؤ ، ہنر ختم اور قید بھی ختم! چنانچہ میں نے اس پیغام کو سمجھا اور مردہ ہوگیا ، اب آپ کے لئے بے کار تھا ، آپ نے مجھے پنجرے سے نکال کر باہر پھینک دیا ، کیونکہ میں آپ کے کام کا نہ رہا ، اب آزاد ہوں ، اب تنگنائے قفس سے باہر ہوں ، لیجئے میرا آخری سلام لیجئے ۔ یہ کہہ کر وہ فضا کی وسعتوں میں گم ہوگیا ، تاجر ہاتھ مل کر رہ گیا۔
میں نے کہا ،تم لوگ حصول علم کی راہ میں ہر کام سے نکمے ور ناکارہ بن کر رہو تاکہ کوئی انجمن تمہیں نہ پوچھے ، نہ تم صدر بننے کی لیاقت رکھو نہ سکریٹری بننے کی ، نہ انجمن کے کسی کام کی! طلبہ تمہیں بیوقوف کہیں ، صوفی کہیں ، بے کار کہیں ، سنو اور خوش رہو ، تمہیں کوئی نہ چھیڑے گا ، تم علم کیلئے فارغ رہو ، اور بس ایک ہی کام کرو ، دوسرے کسی کام سے مطلب نہیں !
٭٭٭٭٭