درس گاہوں میں بھی گھس آیا ہے ، یہاں بھی انجمن بنتی ہے ، جمعیۃ سجتی ہے ، انتخابات کے نام پر الیکشن ہوتے ہیں ، پارٹیاں سجائی جاتی ہیں ، امیدواروں کی حمایت ومخالفت کی سرگرانیاں تعلیم کے نظام کو تہ وبالا کرتی ہیں ، پورے سال اس پارٹی بندی کا اثر باقی رہتا ہے ، تعلیم کی چولیں ہل جاتی ہیں ، طبیعتوں کا رخ بدل جاتا ہے ، میں نے متعدد طلبہ کو دیکھا کہ وہ تعلیم میں ذہین تھے ، محنت میں طاق تھے ،ا ن سے دین اور علم کے موضوع پر بڑی امیدیں وابستہ تھیں ، مگر انجمن کے انتخاب اور اس کے عہدوں کی کشمکش نے انھیں کسی اور راہ پر ڈال دیا ، ان کی صلاحیتیں نہ صرف بجھ کر رہ گئیں ، بلکہ انھوں نے تعمیر کے بجائے تخریب کی راہ اختیار کی ، اور خود اپنے لئے ، اپنے معاشرہ کے لئے بلکہ بعض اوقات دین وملت کے لئے بڑا مسئلہ بن گئے۔
مدارس کا موضوع چونکہ دین کا علم وعمل ہے ، آخرت کاافکر واعتقاد ہے ، اﷲ کی رضا وخوشنودی ہے ، انجمن اور اس کے تقاضے اس موضوع سے خاصے منحرف ہیں ، اس لئے ان میں پڑکر طالب علم کی طبیعت عجب انتشار کی شکار ہوتی ہے ، نہ وہ دین کے لئے یکسو ہوپاتا اور نہ دنیا کے لئے !پھر جس مقصد کے لئے اس نے مدرسہ میں قدم رکھا تھا اس سے بہت دور جاپڑتا ہے ، تب نہ وہ اپنے موضوع کا ہوتا ہے نہ دنیا کے موضوع کا ، یہ اس کی بہت بڑی ناکامی ہوتی ہے۔
میں نے اپنے طلبہ کو انجمن سازی سے یکسو کرنے کا اہتمام کیا ، میں نہیں چاہتاتھا کہ ایک تھوڑی سی دنیاوی چمک دمک اور عارضی عزت وجاہ کے لئے وہ اپنی پوری دینی زندگی کو داؤ پر لگادیں ، میں خود اس کا شکار ہوچکاتھا ، اس لئے اس فساد کی رگ رگ سے واقف ہوگیا تھا، میں بہت تفصیل سے اس سلسلے میں اپنے طلبہ کو سمجھاتاتھا، مجھے طلبہ سے چونکہ محبت بہت ہے ، اس لئے وہ میری بات سمع قبول بلکہ حسن قبول سے سنتے ہیں ، میں نے طلبہ کو متنبہ کیا کہ جب تم دار العلوم جاؤگے تو وہاں تمہیں بھی انجمن سازی کی دعوت دی جائے گی ، عہدے پیش کئے جائیں گے ، مگر تم قریب نہ جانا، صراحۃً مخالفت بھی نہ کرنا ورنہ خوامخواہ کی