خاص محنت کرتاتھا ، علمی وکتابی صلاحیت واستعداد کے ابھارنے اور بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ان کی دینی واخلاقی تربیت کا بھی خاص اہتمام کرتاتھا ، میں چونکہ دیوبند مں خود ایک بڑے حادثے کی چوٹ کھائے ہوئے تھا ، اس لئے چاہتاتھا کہ میرے طلبہ اس کی طرح کی چوٹ سے محفوظ رہیں ، لیکن مجھے اندیشہ تھا کہ کم ازکم دار العلوم دیوبند کا ماحول ایسا ہے کہ اگر کوئی کچھ بننا چاہے تو اسے بھی سازگارماحول مل جاتا ہے ، لیکن بگڑنے اور بگڑتے چلے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس حادثہ سے میں دوچار ہوا تھا یہ بھی اس کے شکار ہوجائیں ، میں اکثر غور کیا کرتاتھا کہ وہ کیا اسباب ہیں جن میں مبتلا ہوکر طلبہ نفس و شیطان کے دام میں پھنستے ہیں ، مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے دو خاص اسباب ہیں ، طلبہ نادانی میں اور نوجوانی کے جوش میں اس کے قریب جاتے ہیں اور حرماں نصیبی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔
(۱) ان میں پہلی چیز انجمن سازی ہے ، انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کی یونین ہوتی ہے ، یہ یونین انتظامیہ کے لئے بڑا درد سر بنتی ہے ، مگر کالجوں کے سامنے نصب العین چونکہ صرف دنیا اور مفاد دنیا ہے ، اس لئے انجمن اور یونین ان کے مقاصدکے لئے قدرے معین ثابت ہوتی ہے ، اس کی وجہ سے انتظامیہ کے سامنے جو مسائل آتے ہیں ، انھیں وہ دنیاوی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں ، ان کے سامنے آخرت کی جواب دہی کااحساس چونکہ نہیں ہوتا ، نہ شرعی مسائل کا پاس ولحاظ کوئی رکاوٹ بنتا ، اس لئے وہ بجائے الجھن بننے اور باعث خرابی ہونے کے سیاسی شعور حاصل ہونے کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ، ہر کالج اوریونیورسٹی میں یونین کا موضوع درد سر بنتا ہے ، نہ جانے کتنے جھگڑے ،کتنے فساد اس سے ابھرتے ہیں اور نہ جانے کتنی ذہانتیں اور کتنی صلاحیتیں اس سیلاب بلا میں ڈوب جاتی ہیں ، مگر دنیادارانہ نطام تعلیم خوش ہوتا ہے کہ اس نے اتنے لیڈر ، اتنے قائد پیدا کئے ، حقیقت میں یہ سوچ ذوق کا فساد ہے۔
میں نے دیکھا کہ بلاؤں کا یہ سیلاب انگریزی درس گاہوں سے چل کر اسلامی