نکل کر آرہا تھا، اس کے علاوہ آس پاس کے طلبہ بھی معقول تعداد میں داخل ہوئے ، اب میری طبیعت نے مشغولیت کا وافر سامان پایا ، یکسوئی بڑھی ، پچھلے سال کااضطراب ختم ہو ا، طبیعت مدرسہ میں جمی ، فارسی کے لے کر عربی پنجم تک کے طلبہ کی جماعتیں مسلسل قائم ہوئیں ، مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ میرے پاس بارہ چودہ کتابیں زیر درس تھیں ، عربی پنجم سے عربی دوم تک ہر جماعت کی زیادہ تر کتابیں میں ہی پڑھاتا تھا ، فجر کے بعد سے درس شروع ہوتا ، تو مغرب کے پہلے تک سلسلہ چلتا رہتا ، پڑھانے کاوہ جوش تھا کہ تکان کا نام ونشان نہ تھا ، عربی پنجم کے طلبہ سے خاص طور سے دلبستگی تھی ، اس جماعت میں بڑے بڑے طلبہ تھے ، اور بہت فہیم اور فرمانبردار تھے ، خاص طور سے
۱۔ عزیزم مولوی رفیع الدین سلّمہ
۲۔ عزیزم مولوی منیر الدین سلّمہ
۳۔ عزیزم مولوی ولی محمد سلّمہ
۴۔ عزیزم مولوی حبیب اﷲ سلّمہ
۵۔ عزیزم مولوی خورشید عالم سلّمہ
۶۔ عزیزم مولوی عابد علی سلّمہ
۷۔ عزیزم مولوی عبد الحق سلّمہ
ان طلبہ پر محنت کرکے طبیعت خوش ہوتی تھی ، یہ بھی بہت سعادت مندی کے ساتھ تعلیمی یکسوئی میں لگے رہتے تھے ، مدرسہ میں تجوید کی تعلیم کا نظم نہ تھا ، میرے پاس ان طلبہ کا آخری سال تھا ، میں عصر کے بعد انھیں تجوید پڑھاتاتھا ۔ غرض صبح سے شام تک مسلسل مشغولیت رہتی ، ان دنوں عبادات کا ذوق بھی عروج پر تھا ، صوم داؤدی کا پابند تھا ، رات کو عشا کے بعد جلد سوجاتا، صبح صادق سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے بیدار ہوتا ، نماز وتلاوت اور ذکر وشغل کی مشغولیت رہتی ، پھر فجر کے بعد اشراق تک وظائف ، پھر مسلسل درس! یہ چوبیس گھنٹہ کا عمل ہوتا ، کہیں آنا جانا بند! تعلقات مختصر سے مختصر ! میں ہوتا ، طلبہ ہوتے ، کتابیں ہوتیں ، گھرانا بھی چھوٹا تھا ، ایک بیوی، گود میں ایک بچی! نہ بیوی کا کوئی مطالبہ اور دباؤ ، اور نہ بچی کا کوئی مسئلہ!