علاقے میں بکثرت تجربہ ہوا کہ جناتوں کی بہتات ہے ، نماز سے فارغ ہوکر میں بیٹھا کچھ پڑھتا رہا ، ابھی صبح صادق کی کرن نہیں پھوٹی تھی ، مجھے قضائے حاجت کاتقاضا ہوا، اس دیہات میں بیت الخلاء کہاں میسر ! میں نے پانی لیا اور میدان کی طرف نکل پڑا ، موقع کی دعائیں پڑھ کر ایک مناسب جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا ، بیٹھناتھا کہ ایک ہنگامہ شروع ہوگیا ، دائیں بائیں ، آگے پیچھے سے مٹی کے بڑے بڑے ڈلوں کی بارش شروع ہوگئی ،لیکن کوئی ڈلا نہ بدن پرآتا نہ بدن کے قریب گرتا ، دودوچار گز کے فاصلے پر وہ ڈلے گرتے رہے ، میں فارغ ہوکر اٹھا تو ڈلوں کے حملے بند ہوگئے ، اطمینان سے کمرے پر واپس آگیا ، مجموعی طور سے اس واقعے سے دل میں وحشت کی سی کیفیت پیدا ہوئی ، مگر بحمد اﷲ خوف طاری نہیں ہوا، میں دوپہر تک سوچتا رہا کہ یہ سرگزشت کسی سے ذکر کروں یا نہ کروں ؟ اﷲ جانے ان لوگوں پر کیا اثر پڑے؟ مگر اس قسم کی باتیں ہضم کرنا خاصامشکل کام ہے ، اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھ سے یہ مشکل کام نہ ہوسکا، ظہر کی نماز کے بعد کچھ لوگوں سے میں نے اس کا تذکرہ کیا ، تو ایک صاحب کہنے لگے کہ جی! اس کمرے میں ایک جِنّیہ رہتی ہے ، مولوی کمال الدین مرحوم سے اس کی اکثر لڑائی ہوتی تھی ، میں نے کہا جب یہ بات آپ کو معلوم تھی تو مجھے پہلے ہی بتادینا چاہئے تھا تاکہ میں اس کی کوئی تدبیر کررکھتا ، خیر یہ بات رفت وگزشت ہوگئی اور اس جنّیہ نے اس کمرے کو چھوڑدیا ،بلکہ اس گاؤں کو چھوڑدیا ، اس سے پہلے اس کمرے میں کوئی رات میں رہنے کی ہمت نہیں کرتاتھا ، اس قصے کے بعد وہ آباد ہوگیا۔
میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ اس علاقے میں جہالت کا ڈیرا تھا ، مولوی کمال الدین مرحوم نے بہت کچھ محنت کرکے لوگوں کو علم کی طرف متوجہ کیا تھا ، لیکن ان کی جہالت کا حال اب بھی یہ تھا کہ بہت سے لوگوں کے نام ہندؤں جیسے تھے، اکثر ناموں کو مولوی صاحب مرحوم نے بدل دیا تھا، بطور مثال کے چند ناموں کا ذکر کرتا ہوں جس سے جہالت کا قدے اندازہ ہوگا ،مسجد کے بانی اور پہلے امام جو میرے پہونچنے سے بہت پہلے وفات پاچکے تھے ، ان کا نام ’’کودی