نہ اس سے کبھی مناسبت ہوئی اور نہ اب ہے ، لیکن اس میں خاصا بدنام ہوگیا ہوں ، اور وہ ہے تعویذات اور جھاڑ پھونک کاکام، اس پورے علاقے میں کسی کو کوئی بیماری ہوتی تو سیدھا میرے پاس آتا ، مجھے اس فن سے کوئی واقفیت نہ تھی مگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے کبھی پانی پر دم کرتا ، کبھی کچھ لکھ کر تعویذ کے نام پر دیدیتا ، کبھی تیل پر دم کرتا اور اﷲ سے دعائیں کرتا کہ مجبوروں پر رحم کرنا آپ کا خاص کرم ہے ، ان حاجتمندوں کی حاجات پوری فرمادیجئے ۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒکی سوانح ’’تذکرۃ الرشید ‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہوا ہمیشہ ذہن میں رہا ، وہ یہ کہ ایک نوجوان اپنی کسی ضرورت میں مضطر اور بے تاب ہوکر حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں پہونچا اور اسبابِ ظاہری کے اعتبار سے اس ضرورت کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا ، اور اس کو حضرت کے سامنے رکھنے کی ہمت بھی نہیں تھی مگر انتہائی مجبوری سے بے تاب ہوکر اس نے حضرت کے سامنے زبان کھول ہی دی، حضرت نے ایک تعویذ لکھ کر اسے دیدیا کہ بازو میں باندھ لو، یکایک حالات پلٹے اور مقصد حاصل ہوگیا ، اس کے ساتھیوں اور ہمجولیوں کو حددرجہ تعجب ہواکہ اتنے الٹے حالات یکایک کیسے سیدھے ہوگئے ، کسی نے کہا کہ یہ گنگوہ گیا تھا وہاں سے کوئی تعویذ لایا ہوگا، یہ نوجوان چھپانے کی کوشش کرتا رہا مگر ساتھیوں نے اس کی تلاشی لے ڈالی ، اور بازو سے تعویذ کھول لیا ، اب اشتیاق ہوا کہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں کیا لکھا ہے ؟ کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا ’’ الٰہی ! میں جانتا نہیں ، یہ مانتا نہیں ، یہ تیرا بندہ اور تیرا غلام، توجانے اور تیرا کام ‘‘ ۔ تعویذ کے اس مضمون نے میرے دل پر یہ اثر ڈالا کہ الفاظ وعبارت کچھ نہیں ، مشیّت الٰہی کام کرتی ہے ، اس لئے جس کو جو ضرورت ہو اسے خدا کے حوالے کردینا چاہئے ، ممکن ہے اسی راستے سے کچھ لوگ پریشانی سے بچ جائیں ، چنانچہ اس کے تجربات ہونے لگے ۔ اس سلسلے میں ایک بالکل ابتداکا واقعہ یادگار ہے جو ذہن سے کبھی محو نہیں ہوتا اور جس کی وجہ سے اس سلسلے کو نشوونما ملی۔ یہ واقعہ پہونچنے کے دوتین کے بعد ہی پیش آیا، وہ یہ کہ ایک نوجوان نے مجھ سے کہا کہ اس کے یہاں دوتین ولادتیں ہوئیں مگر ہر ایک میں بہت دشواری اور زیرباری کا سامناہوا، اہلیہ کو ۱۰؍۱۱؍