کے بعد میرے سامنے بھی یہ مسئلہ شدت سے ابھرنے لگا ، کئی حضرات نے مجھ سے نہایت دردمندی کے ساتھ اس مسئلے کو ذکرکیا کہ سال میں یہ دو خوشی کے مواقع ایسے آتے ہیں جن میں دلوں کا سکون درہم برہم ہوجاتا ہے ، آپ کو یہ سارا علاقہ ماننے لگا ہے اگر آپ کی فہمائش سے یہ اختلاف دور ہوجائے تو بہت مبارک ہوگا ، میں نے اس سلسلے میں محنت شروع کردی ، لیکن اندازہ ہوا کہ جھگڑے کا یہ جن آسانی سے لوگوں کے سروں سے اترنے والا نہیں ہے ۔
یہ زمانہ برسات کا تھا ، مگر بارش نہیں ہورہی تھی ، کھیتیاں سوکھی جارہی تھیں ، اس علاقے میں بارش کے علاوہ آب پاشی کاا ور کوئی ذریعہ نہیں ، پہاڑی زمین ہونے کی وجہ سے ہینڈ پائپ اور ٹیوب ویل کا کوئی نظم نہ تھا ، چند ایک کنویں تھے جن سے لوگ پانی پینے کا انتظام کرتے تھے ،اور دوایک تالاب تھے جن میں لوگ نہاتے اور کپڑے دھوتے ، سینچائی کے لئے صرف بارش کا سہارا ہوتا ، مگر بارش مطلق نہیں ہورہی تھی ، اس لئے خلقت پریشان تھی ، میں نے نمازِ استسقاء اور دعاء واستغفار کے لئے کئی مرتبہ لوگوں کو اکٹھا کیا ، مگر بظاہر ہر اجتماع ناکام رہا اور دعا نامراد رہی ۔ بارش نہ ہونی تھی اور نہ ہوئی ، جن لوگوں کے دلوں میں بدگمانی کی خلش تھی انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ فلاں مولوی کی نحوست سے بارش بند ہے ، اس افواہ سے مجھے قلبی صدمہ ہوا ، مگر قرآن کریم کی ان آیا ت سے تسکین ہوتی جن میں انبیاء کی قوموں نے انبیاء کو ملزم گردانا تھا اور اﷲ نے ان کی تردید فرمائی ہے ۔ عشرۂ اخیرہ میں اس خاکسار کا قیام مرکٹّا میں ہوا، بلکہ مسجد میں اعتکاف کیا اور وعظ ونصیحت میں مزید سرگرمی پیدا ہوئی ، رمضان کا آخری دن آتے آتے اﷲ کا خاص فضل یہ ہوا کہ پورے علاقے میں اتحاد کی صورت پیدا ہوگئی ، صرف ایک گھرانہ بلکہ اس گھرانے کا ایک فرد جو خاصا بااثر تھا وحدتِ کلمہ کی اس صورت سے بدکتا رہا ، میں نے عید کے دن فجرکی نماز کے فوراً بعد اس کے گھر جاکر اس موضوع پر گفتگو کی ، وہ شخص تھوڑی دیر میں موم ہوگیا ، اور عید کی نماز آٹھوں گاؤں نے ایک جگہ جمع ہوکر ادا کی ، اس یکجائی کا منظر بھی قابل دیدتھا ، سب کے چہروں پر خوشی کی لہرتھی ، پرانی رنجشیں یکلخت کافور ہوگئیں ، کسی کو کسی سے گلہ نہ رہا، جب تمام لوگ خوشی خوشی ایک جگہ اکٹھا