اور اس کا اظہار اطاعت اور دینداری کی صورت میں ہورہا تھا ، نمازیوں کی تعداد بڑھتی رہی ، روزہ رکھنے کاشوق اور تراویح کا اہتمام نمایاں طور پر محسوس ہورہا تھا ، وہاں روزے کے سلسلے میں عام دستور پہلے سے یہ تھا کہ رات میں جب جس کی آنکھ کھلتی سحری کھالیتا ، یہاں تک کہ اگر کسی کی آنکھ صبح صادق کا اجالا پھیلنے کے بعد کھلتی تو وہ بھی کمرے کا دروازہ بند کرکے اندھیرا کرکے سحری کھالیتا، میں نے اپنے دوستوں کی مدد سے ہر گاؤں میں اس کا انتظام کیا کہ صبح صادق ہونے کی اطلاع ہر گھر میں پہونچ جائے ،اور کسی کا روزہ خراب نہ ہو ، لوگوں نے بہت ذوق وشوق کے ساتھ اس انتظام کو قبول کیا ، تراویح کے بعد مواعظ کا سلسلہ جاری تھا ، ان مواعظ میں جہاں ترغیب ترہیب کی باتیں ہوتیں ،وہیں روز مرہ کے ضروری اور اہم مسائل بھی بیان کئے جاتے ، اس طرح لوگوں کو مسائل بھی معلوم ہوتے اور دلوں میں اﷲ ورسول کی محبت وعظمت اور خوف وخشیت کی بھی پرورش ہوتی ، اور بچوں کی تعلیم کا بھی جذبہ بیدار ہوتا۔
ایک قابل ذکر بات چند دنوں کے بعد یہ سامنے آئی کہ یہ سارا علاقہ پنجوقتہ نماز کی جماعت اور جمعہ کی جماعت میں تو متحد ہے ، ایک امام کے پیچھے ، ایک مسجد میں ساری نمازیں ادا کی جاتیں ، مگر عیدین کی نماز ایک کے بجائے دوجگہ پڑھتے ، اور معلوم ہوا کہ اس کا سلسلہ ایک عجیب وغریب جھگڑے سے شروع ہوا ۔ ایسا جھگڑا جس کی نظیر اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی ، وہ یہ کہ آج سے کم ازکم سو دیڑھ سو سال پہلے علاقے کے لوگ عیدین کے لئے اکٹھا ہوئے تو کچھ لوگ جو پنجگانہ نمازوں کے پابند تھے وہ خود اگلی صف میں کھڑے ہوئے اور بے نمازیوں کو اپنے ساتھ صف میں کھڑے ہونے اجازت نہ دی ، اس کی وجہ سے نمازیوں اور بے نمازیوں میں سخت افتراق پیدا ہوگیا ، اور بے نمازیوں نے اپنی عیدگاہ الگ کرلی اور اس طرح کچھ عرصے تک سال بھر کے نمازی الگ عید کی نماز پڑھتے اور دوسرے لوگ الگ ، کچھ مدت گذرنے کے بعد الگ الگ آبادیوں کی عیدگاہیں ہوگئیں ، اور اس بنیاد پر ایک بدمزگی کی کیفیت مستقل رہنے لگی ، بعد میں مختلف لوگوں نے عید کی نماز کو متحد کرنا چاہا مگر اختلاف کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ کوشش بسیار کے بعد بھی اتحاد پیدا نہ ہوسکا ۔ ۱۵؍ رمضان المبارک