کھیتی ہوتی ہے ، کچھ ترکاریاں بولیتے ہیں ، کچھ مرغیاں پال لیتے ہیں ، یہ نہایت غریب لوگ ہیں ، ان کی معیشت اور معاشرت بدحالی کے آخری سرے پر ہے ۔ زندگی کے سامانِ آسائش تو کجا ، ضروریات کا بھی یہاں گزرکم تھا ، بجلی کو کون پوچھے ؟ لالٹینیں بھی کم دکھائی دیتی تھیں ، مجھے وہاں اس طرح وقت بسر کرنا تھا کہ ان ناخواندہ لوگوں کے کانوں میں اور دلوں میں زیادہ سے زیادہ دین کی بات اتارسکوں ، مگر مشکل یہ تھی کہ میں جس زبان کے بولنے اور لکھنے کا عادی تھا اس زبان سے یہ لوگ پوری مانوس نہ تھے ، اور جو زبان یہاں بولی جاتی تھی اس سے مجھے کوئی مناسبت نہ تھی ، لیکن بہر حال مجھے یہاں رہنا تھا ، میرے دوستوں نے بہت سمجھداری اور عقلمندی سے میری رہائش کاایسا انتظام کیا کہ اس میں تنوع رہے ، تاکہ میری طبیعت اکتانہ جائے ، اور زیادہ سے زیادہ لوگ دینی فائدہ بھی حاصل کرسکیں ، چنانچہ رمضان سے پہلے قیام مختلف گاؤں میں ہوتا رہااور نمازیں پانچوں وقت کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا ہوتی رہیں ۔ عشاء کی نماز میں سار اعلاقہ مسجد میں اکٹھا ہوتا اور آدھ گھنٹہ ہر روز پابندی سے وعظ ہوتا ، رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد پہلے عشرے میں قیام مولانا رفیع الدین صاحب کے گھر ہوا ، نمازوں کے معمولات وہی رہے جو پہلے سے چل رہے تھے ، تراویح کی نماز ایک جم غفیر کے ساتھ ادا کی جاتی ، اس میں آٹھوں گاؤں کا ہر بالغ فرد حاضر ہوتا اور تراویح کے بعد آدھ گھنٹہ وعظ ہوتا ۔ دوسرا عشرہ مولانا منیر الدین صاحب کے گھر بسمتہ گاؤں میں بسر ہوا ، یہ گاؤں مسجد سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ، لیکن میں پابندی کے ساتھ پانچوں نمازوں میں حاضر ہوتا تھا ، اس کا خوشگوار اثر یہ پڑا کہ ہر گاؤں کے لوگ بالالتزام مسجد میں حاضر ہوتے رہے ، بغیر کسی شدید مجبوری کے لوگ غیر حاضری نہ کرتے ، اس طرح علاوہ مجالسِ وعظ کے انفرادی طور پر بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جہالت کی تاریکیاں اس پورے علاقے کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھیں ، لوگ تہذیب وتمدن سے کوسوں دور تھے ، ملنے جلنے کاانداز بھی میرے لئے نامانوس تھا ، مگر دلوں میں آہستہ آہستہ محبت اور عقیدت کی جڑیں گہری ہوتی جارہی تھیں