بھرتیں اور کپڑا دھونا ، برتن دھونا، نہانا ، یہ سب کام تالاب پر ہوتا ، گھروں میں بیت الخلاء واستنجا خانے کا نام ونشان نہ تھا ، لوگ تالاب کے کنارے اور کھیتوں میں ضروریات سے فارغ ہوتے ، یہاں تک کہ قضائے حاجت کیلئے کنایہ، تالاب جانے سے ہوگیا تھا ۔ ایک صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ تالاب کے راستے سے خون جارہا ہے ، میں نہیں سمجھا ، کافی دیر پوچھنے پاچھنے پر معلوم ہوا کہ بواسیر خونی کا عارضہ ہے ، اس کی تعبیر اس طرح کررہے تھے۔
گھروں میں اوڑھنے بچھانے کے سامان بقدر ضرورت سے بھی کم تھے ، جاڑوں میں رضائی کا فقدان تھا، دھان کی پیال کااستعمال زیادہ تھا ، اسی کا بچھونا ، اسی کا اوڑھنا اور اس کے طریقے بھی عجیب وغریب ، ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، مالی کمزوری نے ضرورت کی چیزوں کی عجیب عجیب شکلیں بنارکھی تھیں ، میں وہاں گیا تھا ، تو اپنے ساتھ روز مرہ ضرورت کی کئی کئی چیزیں لیتا گیا ،اوربعض چیزیں تجربہ کے بعد اس کے بعد کے اسفارمیں لے جاتا رہا ، مثلاً لالٹین ، پیڑھا ، مچھردانی ، لوٹا وغیرہ۔
اس مجموعہ آبادی کے قریب پاس میں کوئی بڑا بازار نہ تھا ، دوتین کلومیٹر کے فاصلے پر دودن ہاٹ لگتی تھی ، جس میں روز مرہ کی ضروریات قدرے مہیا ہوتی تھیں ، بڑا بازار کم ازکم ۱۵؍ کلومیٹر کے فاصلے پر دوتھے ، ایک پالو جوری اور دوسرے جرمنڈی ، ان بازاروں میں جانے کے لئے کوئی سواری کا راستہ نہ تھا ، زیادہ تر لوگ پیدل جاتے تھے ، یا اگر کسی کو میسر ہوئی تو سائیکل سے جاتاتھا ، ڈاکٹر وہیں ملتے ، ضروریات کے اہم سامان وہیں ملتے ، وہاں کے لوگوں کا روز مرہ کا معمول تھا کہ کھڑاؤں پہنے پہاڑی راستوں کو عبور کرتے ہوئے صبح کو بازار جاتے اور دوپہر یا شام کو لوٹ آتے ۔
عام لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری کے علاوہ کچھ نہ تھا ، اور اس کا بھی انحصار محض بارش پر !ہلکی پھلکی بیماریوں کے لئے کچھ دیہاتی ڈاکٹر جو چند دواؤں کے نام اور ان کا استعمال جانتے تھے وہاں دستیاب تھے ، لیکن اگر کسی اہم اور بڑی بیماری یا ضرورت میں ابتلا ہوتا تو وہی ۱۵؍ کلومیٹر دور پالو جوری یا جرمنڈی جانا پڑتا ، یا کچھ دور دیوگھر کا رخ کرنا پڑتا۔