سواری کے نام پر زیادہ سے زیادہ جو چیز حاصل تھی وہ سائیکل یا قدیم دور کی بیل گاڑی کام میں لائی جاتی ، موٹر سائیکل یا موٹر کار وغیرہ کا کہیں نام نہ تھا ۔
کھیتی کے علاوہ بعض لوگ بنگال وغیرہ میں کوئلے کی کان پر ملازمت کرتے تھے ، بعض لوگ کوئلے کے ٹرک چلاتے تھے ، اس قسم کے افراد نسبتاً خوش حال سمجھے جاتے تھے ، مگر ان کی خوشحالی ہمارے علاقے کے متوسط درجے کے خوش حال کے قدرے قریب تھی۔
یہ دنیوی پسماندگی کا حال تھا ۔ دینی پسماندگی جسے موضوع بناکر میری حاضری ہوئی تھی ، اس کا حال ناگفتہ بہ تھا ۔ میں اس وقت وہاں پہونچا تھا جب ایک دینی اصلاح کی ایک کوشش ہوچکی تھی ، وہ کوشش تین چار سال قبل ہوئی تھی ، ورنہ اس سے پہلے کا جو حال وہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا وہ کسی طرح دینی واسلامی نہ تھا ۔ جہالت تھی ، کفر وشرک کی گرم بازاری تھی ، توہمات کا دور دورہ تھا ، مسجد ضرورتھی مگر اس لئے نہیں کہ اس میں نماز پڑھی جائے بلکہ اس لئے کہ اگر بارش نہ ہو ،سوکھا پڑرہا ہو تو سارے علاقے سے چندہ کرکے ایک بکری محرابِ امام میں ذبح کی جائے اور اس کا خون پکے فرش پر صحن تک بہایاجائے ، پھر اس کی بوٹی بوٹی کرکے گاؤں کے ہرہر فرد کو تقسیم کی جائے ۔ یہ ان دیہاتیوں کے وہم کی کرشمہ سازی تھی کہ اس طرح بارش ہوگی ، قحط کی وبا دور ہوگی ، نماز کا ذکر تو نہ تھا ، البتہ تعزیہ کی پرستش اہتمام سے تھی ، مسجد کے سامنے چوک بناہوا تھا ، گاؤں کے باہر پتھر کی ایک چٹان زمین پر جمائی ہوئی تھی ، کاشتکارجب کھیتی کے عمل کا آغاز کرتا تو اس پر دودھ کا چڑھاوا بطور نذر کے پیش کرتا ، کہ اس سے فصل اچھی ہوگی اور نقصان سے محفوظ رہے گی، شادی بیاہ کی تاریخیں ہندو پنڈتوں سے رکھوائی جاتیں ، دلہنوں کو گھر میں لانے کے وقت کی تعیین ان سے کرائی جاتی ، غرض زندگی کے ہر عمل پر شرک وکفر اور ہندوانہ تہذیب کی چھاپ تھی ، اور یہ چھاپ اتنی عام تھی کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کے نام تک ہندوانہ تھے ، ان میں لفظ میاں لگاکر انھیں مسلمان بنالیاجاتا تھا ، مثلاً جگدیش میاں ، ڈوما میاں ، لیدھو میاں ، چھاتو میاں وغیرہ۔
میرے وہاں پہونچنے سے چند سال پہلے دار العلوم دیوبند کے ایک ناتمام تعلیم یافتہ