ڈیہہ دو گاؤں تھے، ان دونوں سے قدرے فاصلہ پر جَڑوا ڈیہہ ایک گاؤں تھا ، شمال میں دوگاؤں تین گھرا اور بسمتہ تھے ، اس طرح یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے آٹھ گاؤں پر مشتمل تھا ۔ اس مجموعۂ آبادی کا دنیوی اعتبار سے مرکز نانہی ڈیہہ تھا ، اور دینی اعتبار سے مرکٹہ! کیونکہ مسجد اور عید گاہ صرف مرکٹہ میں تھی ، آٹھوں گاؤں کے لوگ پنجو قتہ نماز ، تراویح اور جمعہ اسی مرکٹہ کی مسجد میں ادا کرتے تھے ، اب سے کچھ دنوں پہلے مکتب یہیں تھا ، دین کی تعلیم کی بنیاد یہیں سے پڑی تھی ۔ دنیوی اعتبار سے مکھیا ، ڈاکٹر اور مالدار افراد نانہی ڈیہہ میں تھے ، ڈاکخانہ بھی وہیں تھا۔
برسات کا زمانہ تھا ، موسم خوشگوار تھا ، شعبان کی ۱۶؍ تاریخ تھی ، شام تک میں وہیں رہا ، تینوں طلبہ پہونچے ، انھوں نے باہم مشورہ کرکے میرے رہنے کا ابتدائی انتظام مولانا رفیع الدین صاحب کے گھر ہیٹ نواڈیہہ میں کیا ، ان کے رہائشی مکان سے الگ ایک بیٹھک تھی ، اس میں قیام طے ہوا۔چونکہ ابھی رمضان آنے میں وقت تھا ، اس لئے کھانے کے لئے کبھی مولانا منیر الدین کے گھر بسمتہ جانا ہوتا ، نماز پانچوں وقت کی مرکٹہ میں ہوتی ، اس طرح تینوں طلبہ کے یہاں آمدورفت ہوتی ۔ آبادیوں کا یہ مجموعہ پہاڑیوں کے درمیان تھا ، یہ پورا علاقہ دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی اعتبار سے بھی آخری درجہ میں پسماندہ تھا ، دنیوی اعتبار سے تو یہ حال تھا کہ سارے علاقے چندایک پختہ مکان تھے ، کوئی شخص اور کوئی گھر مالدار دکھائی نہیں دیتاتھا ، تمام مکانات کچی دیواروں کے بنے ہوئے بہت معمولی کھپریل تھے ، زندگی کی آسائش کا کوئی خاص سامان نہ تھا ، گھروں میں چراغ کے نام پر معمولی ڈھبریاں جلتی تھیں ، لالٹین کہیں کہیں نظر آتی تھی ، سڑک نام کی کوئی چیز نہ تھی، سواری بڑی سے بڑی صرف سائیکل تھی ، عام طور سے لوگ دھوتی باندھتے ، لکڑی کی کھڑاؤں پہنتے ، دھان کی کھیتی تھی ، مگر پانی صرف بارش کا مل سکتاتھا۔ نہ کوئی ہینڈ پائپ،نہ ٹیوب ویل، بس صرف چند کنویں تھے ، کسی کسی گاؤں میں مختصر سے تالاب تھے ، مرکٹہ میں ذرا بڑا تالا ب تھا جس سے کبھی ضرورت پر آب پاشی بھی کی جاتی تھی ، عورتیں باہرمسجدکے کنویں سے پینے اور پکانے کے لئے پانی