o تَصْلَی نَارًا حَامِیَۃً o(الغاشیۃ:۲؍۳؍۴) قیامت کے دن کتنے لوگ ہوں گے جن کے چہرے لٹکے ہوں گے ، محنت بہت کی ہوگی ، تھکے ماندے ہوں گے مگر دہکتی ہوئی آگ میں گریں گے ۔ یہاں مَیں وہی محنت اورتھکن دیکھ رہاتھا ، لیکن شرک کی راہ پر یہ محنت تھی ، اس لئے اس کا انجام دہکتی آگ ہی ہوگی۔
۸؍ بجے کے قریب بس ملی ، وہاں سے تقریباً پچیس تیس کلومیٹر مشرق میں چل کر ایک بازار میں ہم لوگ اترے ، اس بازار کا نام ’’گھوڑ مارا‘‘ ہے ، اس جگہ ایک خاص طرح کے پیڑے بہت بنتے ہیں جنھیں ہندو زائرین لزوماً خریدتے ہیں اور اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں ، ہندو زائرین بید ناتھ دھام سے ایک اور مقام ’’ باسکی ناتھ ‘‘ جاتے ہیں اور درمیان میں یہ جگہ پڑتی ہے ۔
گھوڑ مارا سے تقریباً ۱۵؍ کلومیٹر اور آگے جانا تھا ، وہاں کے لئے اس وقت بسیں اور سواریاں نہیں چلتی تھیں ، میرے طلبہ نے ایک سائیکل کا انتظام کررکھاتھا ، جسے ایک قوی اور توانا نوجوان غیاث الدین نامی چلانے والا تھا ، اس نے سائیکل کے کیر یرپر گدی کی طرح کپڑا باندھ دیا اور مجھے آرام سے بیٹھالیا ، پھر نہایت مہارت اور سہولت سے کھینچتا ہوا پیچ درپیچ پہاڑی راستوں میں گزرتا ہوا سائیکل چلاتا رہا ، درمیان میں چھوٹے چھوٹے گاؤں پڑتے رہے ، ایک اچھا خاصا بازار بھی عبور کیا ، اوبڑ کھابڑ راستوں میں سائیکل ہچکولے بھی کھاتی رہی مگر چلانے والا ہوشیار تھا ، اس نے حتی الامکان احتیاط سے سائیکل چلائی اور ۱۵؍کلومیٹر کی مسافت اس پیچ درپیچ اور نشیب وفراز سے معمور راستے پر چل کر اس نے پوری کی ، وہ ایک ایسے چھوٹے سے گاؤں میں لایا جس کی آبادی پندرہ بیس مکانوں پر مشتمل تھی ، اس میں ایک اچھی اور پختہ مسجد بنی ہوئی تھی ، اس کے پورب اور جنوب میں چھوٹے چھوٹے متعدد گاؤں تھے ، شمال میں بہت دور تک غیر آباد زمین تھی ، پھر اس کے بعد ایک گاؤں تھا ۔ مغرب کی سمت بھی قدرے فاصلے پر ایک بڑا گاؤں تھا ، اس گاؤں کانام جہاں اس نے مجھے اتارا ’’ مرکٹہ‘‘ بتایا ۔ جنوب میں نانہی ڈیہہ اور منجھلا ٹولا دوگاؤں تھے ۔ مشرق میں اوپر نوا ڈیہہ اور ہیٹ نوا