پنجاب میل سے ’’جسی ڈیہہ‘‘ کا ٹکٹ لیا ، جسی ڈیہہ کلکتہ کی مین لائن پر ایک ریلوے اسٹیشن ہے ، یہاں سے ہندؤں کے مقدس استھان بید ناتھ دھام دیوگھر ۸؍ کلومیٹر ہے ، دیوگھر میں ہندو زائرین کاساون کے مہنے میں ہجوم ہوتا ہے ، ایک مخصوص قسم کا لباس پہن کر ہندو ’’ بولو بم ‘‘ کہتے ہوئے وہاں پوجا کے لئے اکٹھا ہوتے ہیں ، وہ ساون ہی کا مہینہ تھا ، جب میں وہاں کے لئے نکلا تھا ۔ پنجاب میل ڈھائی بجے رات میں جسی ڈیہہ پہونچا ، طلبہ وہاں میرے منتظر تھے ، انھوں نے اسٹیشن پر میرا استقبال کیا ، اب وہاں سے دیوگھر جانا تھا ، دیوگھر کے لئے ایک لوکل ٹرین ۴؍بجے ملنے والی تھی ، اس وقفے میں ہم لوگ پلیٹ فارم پر انتظار میں بیٹھ گئے ، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا ، نماز سے فارغ ہوا تو ایک صاحب کو جن کی داڑھی قدرے سفید تھی دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں ، میں اپنے طلبہ سے باتیں کرنے لگا ، وہ صاحب نماز سے فارغ ہوکر آئے اور سلام ومصافحہ کیا ، طلبہ نے میرا تعارف ان سے کرایا، اور بتایا کہ یہ محمد عثمان صاحب ہیں ، ہمارے قریب ایک گاؤں ہے ’’مورنے ‘‘ وہاں کے رہنے والے ہیں ، اچھے دیندار ہیں ۔
فجر کے پہلے ہم لوگ دیوگھر پہونچ گئے ، وہاں جامع مسجد میں فجر کی نماز ادا کی ، معلوم ہوا کہ ۸؍ بجے بس ملے گی ، جامع مسجد کے قریب ہی روڈ ویز ہے ، وہاں پہونچے تو ہندو زائرین کا ہجوم دیکھا، پیلا پیلا لباس پہنے وہ ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔ میں جہاں بس کے انتظار میں کھڑا ہوا ،وہاں ایک غیر مسلم کو دیکھا کہ کھڑا ہے ، پاؤں پھولا ہوا ہے ، میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کے پاؤں میں اتنی سوجن کیوں ہے؟ کہنے لگا کہ میں نے منت مانی ہے کہ بھارت کی تمام تیرتھ گاہوں پر پیدل جاؤں گا ،اور اس وقت تک نہ بیٹھوں گا جب تک آخری تیرتھ گاہ تک پہونچ جاؤں ، تو چھ ماہ سے بیٹھا نہیں ہوں ، اس لئے پاؤں سوج گئے ہیں ، اب یہ آخری جگہ ہے ، یہاں کی پوجا جب پوری ہوجائے گی تب بیٹھوں گا ۔ میں اس کے اس مجاہدے پر حیرت زدہ ہوگیا ، میں نے سوچا یہ شخص اتنی محنت کررہا ہے مگر غلط راہ پر کررہا ہے ، اس لئے سب ضائع ہے ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : وُجُوْہٌ یَوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌoعَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ