روپئے میں ہوا۔
جن دنوں قاری صاحب غازی پور تشریف لائے تھے ، سردی کا موسم تھا ، اس وقت میں موسم کے تغیرات سے قدرے بے نیاز تھا ، نہ گرمی کا زیادہ احساس تھا نہ سردی کا! سردی سے تو اس حد تک بے نیازی تھی کہ میرا جسم اس وقت ہر قسم کے گرم کپڑے سے ناآشنا تھا ، نہ سوئٹر پہنتا تھا نہ گرم رومال رکھتا تھا ،اور نہ کبھی موزے پہنے تھے ، مجھے یاد ہے کہ مکتب کے درجات میں جب تھا تو والد صاحب ایک مرتبہ لکھنؤ گئے تھے ، اس کا تذکرہ پہلے کہیں کرچکا ہوں ، وہاں سے وہ ایک سوئٹر لائے تھے ، جسے میں شوق اور محبت میں پہنتا تھا ، اس کے پھٹ جانے کے بعد کبھی سوئٹر پہننے کی نوبت نہیں آئی ، پوری طالب علمی گرم کپڑوں سے خالی رہی ، دیوبند میں سردی شدید پڑتی ہے ، حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی علیہ الرحمہ نے مجھے صرف کرتے بنیائن میں شدید سردی میں دیکھا تو پوچھنے لگے کہ آپ اور آپ کے اطراف کے طلبہ بہت غریب ہوتے ہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا نہیں ، خاصے خوشحال ہوتے ہیں ، فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ نہ سوئٹر پہنتے ہیں نہ جرسی ، میں نے عرض کیا کرتے کے نیچے پہنتے ہیں ، فرمایا اور آپ؟ میں نے عرض کیا مجھے ضرورت نہیں ہے۔
پھر فراغت کے بعد جب دلی میں دفتر جمعیۃ علماء میں مقیم تھا ، تو ضرورت محسوس ہوئی کہ سوئٹر یا جرسی خریدی جائے ، میرے محترم دوست مولانا عبد الوحید حیدرآبادی نے ایک پوری آستین کا سوئٹر خریدوادیا ، جسے میں تبلیغی سفر میں پہنتا رہا ، جب گھر واپس آیاتو مسجد میں ایک غریب آدمی کو دیکھا کہ سردی سے کانپ رہا ہے ، تو میں نے وہ سوئٹر اسے دیدیا ، پھر میں آزاد تھا ، البتہ ایک سوتی رومال رکھنے کا عادی تھا ، جو ہر موسم میں میرے کندھے پر رہاکرتاتھا ، جاڑوں میں اسے کانوں پر لپیٹ لیتاتھا ، سردیوں میں کرتے بنیائن پر ایک ہلکی سی سوتی چادر ہواکرتی تھی ،بس تمام جاڑا اسی میں بسر ہوتاتھا ، اس وقت تک میں نے موزہ کبھی نہیں پہنا تھا ، قاری صاحب تشریف لائے اور مجھے اس حال میں دیکھاتو انھوں نے گرم کپڑوں کی تاکید بلیغ کی ،مگر مجھے کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور اس وقت میری مالی حیثیت بھی ایسی نہ تھی