غازی پور آنے کے بعد میں نے تدبیر کی کہ کسی طرح اہلیہ کو اپنے ساتھ غازی پور میں رکھوں ، پہلے میں نے اپنی سسرال کے لوگوں سے اجازت طلب کی،انھوں نے بخوشی اجازت دے دی ، پھر میں نے ڈرتے ڈرتے والد صاحب کے سامنے یہ معاملہ رکھا ، مجھے اندیشہ تھا کہ وہ ناراض ہوں گے ، مگر بحمد اﷲ کچھ نہ ہوا ، انھوں نے بھی اجازت دے دی ، گو کہ بادل ناخواستہ دی ، مگر میں نے اسے غنیمت سمجھا ۔ غازی پور میں عزیز الحسن صاحب صدیقی نے مولانا مشتاق احمد صاحب علیہ الرحمہ کے مشورے سے ایک مکان کا انتظام کردیاتھا ۔
یہ مکان مدرسہ دینیہ سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر غازی پور شہر کے ایک کنارے ’’ میر محلہ ‘‘نامی علاقے میں تھا، اچھا خاصا بڑا مکان تھا ، جو مولانا مشتا ق احمد صاحب کی ایک عزیزہ کاتھا ، وہ بیوہ تھیں ، پرانی رئیس! بہت فہیم اور سلیقہ مند ! تن تنہا اس طویل وعریض مکان میں رہتی تھیں ، یہ مکان کچا اور کھپریل تھا ، آنگن اس کا کافی بڑا تھا ، جس میں کئی درخت تھے ، انھوں نے ایک کمرہ اور اس کے سامنے کا آنگن اپنے تصرف میں رکھااور باقی مکان ہمارے تصرف میں دے دیا ۔ اس مکان میں ہر طرح آرام تھا ، بہت کشادہ ہوادار، آرام دہ! ہاں محلہ ذرا تکلیف دہ تھا ، تھا تو مسلمانوں کا مگر کسی کو دینی ذوق نہ تھا ، مکان کے قریب ایک مسجد تھی مگر ویران، نماز باجماعت کاانتظام نہ تھا ، میری اکثر نمازیں مدرسہ میں ہوتیں ، لیکن میں نے کوشش کی ، محلہ والوں سے ملاقاتیں کی، جماعت کاانتظام کیا ، مگر میرا خود وہاں رہنا کم ہوتا ،اور جس وقت رہ جانے کی کوشش کرتا تو بعض اوقات تنہا نماز پڑھنی پڑتی ، اور مدرسہ کے نظام میں بھی خلل پڑتا ۔ پریشان ہوکر پانچوں وقت کی نمازیں مدرسہ کی مسجد میں جاکر ادا کرتا، غازی پور شہر میں دینی اعتبارسے بڑی مردنی تھی ، دینی احساس میں نے وہاں بہت کم پایا۔
میں اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے اٹھتا ، جب صبح صادق ہوتی تو میں مدرسہ کی راہ اختیارکرتا ، ۱۵؍منٹ کا راستہ تھا ، اس وقت شہر میں سناٹا ہوتا ، میرا راستہ خصوصیت سے غیرآباد اور سنسان تھا ،کتے کبھی کبھی پریشان کرتے مگر میں پابندی سے روزانہ مدرسہ آتا،