وملفوظات پڑھنے کا کبھی اتفاق نہ ہواتھا ، اب جو پڑھنے کی توفیق ہوئی تو دل کی دنیا زیر وزبر ہوکر رہ گئی، میں بار بار ان مضامین کوپڑھتا اور قلب کو گرماتا رہتا ، لیکن یہ چند ہی پرچے تھے ، وہ بھی متفرق!
عزیز الحسن صاحب صدیقی کے یہاں ہمدرد دواخانہ کی ایجنسی تھی ، اس میں کوپاگنج کے ایک بزرگ عالم دین ، صاحب تقویٰ بطور حکیم کے مریضوں کی خدمت کرتے تھے ، یہ تھے مولانا حکیم بشیر الدین صاحب علیہ الرحمہ ، معلوم ہوا کہ یہ بزرگ حضرت شاہ صاحب کے اخص الخواص لوگوں میں تھے ، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور معرفت حق کا تذکرہ کیا ، تو انھوں نے بہت سے شمارے مجھے دئے ، میں انھیں لاکر انھیں میں جذب ہوگیا ، اسباق ، اوراد ووظائف اور تلاوت کے علاوہ سارا وقت معرفت حق کے لئے وقف ہوگیا ، رات کو بستر پر پہونچتا تو اس کے مطالعے میں نیند غائب ہوجاتی ، حکیم صاحب کا عطا کیا ہوا سرمایہ چند دنوں میں پورا ہوگیا ۔ میں نے حکیم صاحب سے مزید درخواست کی تو انھوں نے رہنمائی فرمائی کہ الہ آباد مولانا عبد الرحمن صاحب جامیؔ کو لکھئے ، وہ بہت سے شمارے بھیج دیں گے ، میں نے انھیں بصد شوق خط لکھا ، ان کا جواب جلد ہی آگیا ، اس میں بشارت تھی کہ معرفت حق کی کئی جلدیں جو دفتر میں موجود ہیں بھیجی جارہی ہیں ، میں نہایت بے تابی سے ان کا انتظار کرنے لگا۔
ادھر حکیم صاحب کو حضرت شاہ صاحب کے علوم ومعارف سے میری دلچسپی کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے ملاقات کے مواقع بڑھادئے ، وہ ہر ملاقات پر مجلس میں حضرت مصلح الامت کا ذکر کرتے ، ان کے ملفوظات نقل کرتے ، اپنے تجربات بیان کرتے ، میں دیوانہ وار ان کے حالات سنتا ، دل میں ان کی محبت وعقیدت کے ساتھ اﷲ ورسول کی محبت وعقیدت اور دین کی عظمت کا چراغ روشن ہوتا چلا جاتا ، ایک طرف حکیم صاحب کی باتیں دل میں آگ لگاتیں ، دوسری طرف معرفت حق کا انتظار شدت اختیار کرتا چلاجاتا ، ہر روز بعض طلبہ کو ڈاک خانہ بھیجتا کہ شاید آگیا ہو ، گرمی شدید تھی ، تکلیف کا لحاظ بھی ہوتا ، مگر میری بے تابی چین