تھی اور مفتی صاحب اور دوسرے احباب کی وجہ سے ماحول بھی پُر کشش تھا ، یہاں بالکل سناٹا تھا ۔ مولانا مشتاق احمد صاحب بزرگ تھے اور اپنی دفتری دنیا میں مست تھے ، مولوی جلال الدین سے مناسبت نہ تھی ،اور وہ ملنے ملانے کے آدمی نہ تھے ، ایک عزیز صاحب سے مناسبت ہوئی ، لیکن وہ اس وقت سراپا سفر تھے ، ملاقات ہوتی تو بہت باتیں کرتے ، اور ان کی باتیں زیادہ تر سیاسیات کے محور پر دائر ہوتیں یا جمعیۃ علماء ہند کے کاموں سے متعلق ہوتیں ، میں ان کی وجہ سے دلچسپی لیتا مگر یہ دونوں چیزیں میرے موضوع سے خارج تھیں ، جو طلبہ تھے، ان کا مزاج علم وتعلیم سے بہت کم مناسبت رکھتا تھا ، وہ زیادہ تر مدرسہ کی ضروریات کی خدمت میں لگے رہتے تھے ، میری دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا ، کتب خانہ بھی بہت چھوٹا تھا ، میں گھبراتا تو جمعرات کو بنارس چلا جاتا ، مجھے بس کے سفر میں بہت پریشانی ہوتی تھی ۔
غازی پور سے بنارس فقط ۷۷؍کلومیٹر ہے ، اور بسیں دونوں کے درمیان بہت سی چلتی تھیں ، بسیں تین طرح کی تھیں ، بعض پونے دو گھنٹے میں بنارس پہونچاتی تھیں ، انھیں ’’طوفان میل‘‘ کہا جاتا تھا ، بعض دو سوا دو گھنٹے میں ، یہ میل بسیں تھیں ، بعض پونے تین گھنٹے میں ، یہ پسنجر بسیں تھیں ، ہر پانچ منٹ میں ایک بس بنارس روانہ ہوتی تھی ، میرے لئے بس کا سفر بڑا صبر آزما تھا ، بس پر بیٹھتے ہی دوران سر اور متلی کااثر ہوجاتا ، بس چلنے لگتی تو الٹی بھی ہوتی، اس لئے بس کا سفر مجبوراً ہی کرتا تھا ، اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ہرروز شام کو بنارس چلاجاتا اور صبح کو واپس آجاتا ، مگر ایسا کرنا ممکن نہ تھا ، تاہم جمعرات کو عموماً جانے کی کوشش کرتا ، مہینوں طبیعت کا یہی حال رہا ، لیکن کب تک ، طلبہ سے بھی انس پیدا ہوا ، جگہ بھی مانوس ہوئی ، امتحان سہ ماہی تک کچھ اضطراب کم ہوا ، امتحان سہ ماہی کے بعد عربی چہارم میں کچھ طلبہ مزید داخل ہوئے ، بنارس سے میرے چلے آنے کے بعد اساتذہ میں کچھ اور ردوبدل کا عمل ہوا، کئی لوگ نکل گئے ، کچھ نئے اصحاب آئے ، اس سے مدرسے کا سکون درہم برہم ہوا ، طلبہ بھی ادھر ادھر ہوگئے ، عربی چہارم کے درجے میں مولوی حبیب اﷲ ، مولوی رفیع الدین ، مولوی منیر الدین ، مولوی ولی محمد اور ان کے ساتھ ایک نئے طالب علم مولوی عبد الحق بنارس چھوڑ کر میرے پاس آگئے ،