ہوئے ، وہ بھی بنارس جارہے تھے ، وہاں سے غالباً ڈابھیل جانے کا پروگرام تھا ، انھوں نے بتایا کہ اسی ٹرین میں ڈابھیل کے شیخ الحدیث مئو کے مشہور عالم حضرت مولانا محمد ایوب صاحب بھی موجود ہیں ، چلو ان سے ملاقات کراؤں ، ہم لوگ ان کی خدمت میں جاکر بیٹھے ، مولانا میرے متعلق پوچھنے لگے ، میں نے ساری بات بتائی ، مولانا نے بہت تیقن کے لہجے میں فرمایا کہ تم میسور جاؤ، وہاں کام کے مواقع ہیں ، غازی پور قطعاً نہ جانا ، وہاں کچھ نہ ہوگا ۔ اس بات کو وہ مکرر نہایت یقین اور اعتماد کے لہجے میں فرماتے رہے ، مولانا ابوبکر صاحب بھی تائید کرتے رہے ، مولانا کی اس گفتگو اور مولانا ابوبکر صاحب کی اس تائید نے مجھے عجیب مخمصے میں دال دیا۔
میں بنارس مفتی صاحب کے پاس حاضر ہوا ، تو شام تک عزیز صاحب بھی آگئے، اس وقت عزیز صاحب سراپا سفر تھے ،حرکت مسلسل تھے ، مجھے معلوم نہیں کہ وہ اتفاقی طور پر بنارس آگئے تھے یا مفتی صاحب سے گفتگو کرکے انھوں نے بنارس میں میرا ہونا معلوم کرلیا تھا، آتے ہی انھوں نے پھر پچھلی باتیں دہرانی شروع کیں ، مفتی ابوالقاسم صاحب نے غازی پور رہ جانے کو ترجیح دی ، ان کے مشورے کے بعد میں یکسو ہوگیا ، اہل میسور کے سامنے ایک بار پھر مجھے شرمندہ ہونا پڑا ، دوسرے دن گھر لوٹا اور والد صاحب کو صورت حال بتائی ، تو انھوں نے بھی غازی پور کی ترجیح کی تائید کی ۔
٭٭٭٭٭