تھے ،مولانا محمد اسلم صاحب فاروقی ہمارے گاؤں بھیرہ کے رہنے والے تھے ، پھر نقل مکانی کرکے گھوسی کے قریب اَمِلا بازار میں آباد ہوگئے تھے ، ایک عرصہ تک مدرسہ دینیہ غازی پور میں فیض پہونچاتے رہے ، پھر عرصہ سے غازی پور ضلع کے علاقہ کمسار وبار کے مرکزی مقام دلدار نگر میں جامعہ عربیہ مخزن العلوم کے صدر مدرس اور سرپرست تھے ، ان کے صاحبزادے فضل اﷲ صاحب کو عزیز صاحب نے ایک خط دے کر بھیجا تھا ، عزیز صاحب کا یہ خط زور بیان اور انشا پردازی کا شاہکار تھا ، انھوں نے نہایت شد ومد سے میری ضرورت غازی پور میں ظاہر کی تھی ، لیکن میں میسور سے جو وعدہ کرکے آیا تھا اس کے بوجھ سے دبا ہواتھا ، اس لئے میں عزیز صاحب کی فصاحت وبلاغت اور زور بیان سے متاثر نہیں ہوا ، میں نے جواب لکھ کر فضل اﷲ کو واپس کردیا ۔
دوسرے دن دیکھتا ہوں کہ ظہر کی نماز میں عزیز صاحب بہ نفس نفیس موجود ہیں ، نماز کے بعد ملاقات ہوئی ، انھوں نے مجھ سے ، میرے والد صاحب سے اور ودسرے اہل تعلق سے گفتگو کی ، اس وقت یہ یاد نہیں آرہا ہے کہ گفتگو کے کس مرحلے میں مَیں نرم پڑا ،اور غازی پور جانے پر آمادگی ظاہر کی ، لیکن یہ یاد ہے کہ انھوں نے یہ طے کررکھا تھا کہ اثبات میں جواب لئے بغیر ٹلیں گے نہیں ۔
چند روز کے بعد میں بنارس جارہا تھا کہ مفتی ابوالقاسم صاحب سے مشورہ کروں ، کیونکہ مجھے اس وقت سب سے زیادہ اعتماد اور تعلق مفتی صاحب ہی سے تھا ، میں نے اپنے جی میں طے کیا تھا کہ مفتی صاحب جو مشورہ دیں گے اس کی تعمیل کروں گا ، اس وقت بنارس جانے کے لئے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ محمد آباد سے اعظم گڈھ جاکر بس پر سوار ہوکر بنارس جایا جائے، دوسرے یہ کہ مئو پہونچ کر ٹرین پکڑی جائے۔ مجھے بس کے سفر میں بہت دقت تھی ، میں نے مئو سے چھوٹی لائن کی ٹرین پکڑی ، ٹرین اوڑیہار پہونچی تو مولانا ابوبکر غازی پوری نظر آئے ، وہ ان دنوں ڈابھیل میں پڑھاتے تھے ، مدرسہ دینیہ پہلی مرتبہ گیاتھا تو اس وقت وہ مدرسہ دینیہ میں مدرس تھے ، اسی وقت ان سے شناسائی ہوئی تھی ، وہ مل کر بہت خوش