آپ یہاں کے پرانے ہیں ، آپ کی دعوتیں ہوتی رہیں گی ، مجھے دعوتوں میں لے جانے سے معاف ہی رکھئے ، پھر میں ان حضرت سے دور ہی دور رہا۔
میں ۲۷ ؍ رمضان کو اہل میسور سے رخصت ہوکر ٹرین پر سوار ہوا ، اٹارسی میں کلکتہ بمبئی میل ملا ، اس سے مغل سرائے بارہ بجے رات کے بعد اترا ، معلوم ہوا کہ عید کا چاند ہوگیا ہے ، میں نے سوچا کہ گھر پہونچنے میں نماز چھوٹ جائے گی ، کیوں نہ بنارس میں ہی عید کی نماز پڑھ لوں ، یہ سوچ کر میں مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی کے گھر آگیا ، مفتی صاحب اور ان کے بھائیوں نے بنارس میں مجھے پاکر بہت خوشی کاا ظہار کیا ۔ نہادھوکر مفتی صاحب کے پیچھے عید کی نماز ادا کی ، نماز کے بعد خوب خوب ضیافتیں ہوئیں ۔
میں مفتی صاحب کے گھرپر بیٹھا ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی ، انھوں نے ریسیور اٹھایا اور کسی سے گفتگو کرنے لگے ، گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ لیجئے ، وہ یہیں بیٹھے ہوئے ہیں ، یہ کہتے ہوئے انھوں نے فون میرے ہاتھ میں دیدیا۔ دوسری طرف مدرسی دینیہ کے مہتمم جناب عزیز الحسن صاحب صدیقی بول رہے تھے ، وہ مجھی کو مفتی صاحب سے پوچھ رہے تھے ، فرمایا کہ آپ مدرسہ دینیہ میں آجائیے ، آپ کی ضرورت ہے ، کوپا گنج کے مولوی صاحب مستعفی ہوگئے ہیں ، میں نے عرض کیا کہ میں میسور جارہا ہوں ، وہ مصر ہوئے کہ آپ غازی پور آجائیے ، یہاں بے حد ضرورت ہے ، میں نے مکرر معذرت کی ، مگر وہ اپنے اصرار پر قائم رہے۔
میں بنارس سے رخصت ہوکر عصر کی نماز کے بعد اپنے گاؤں بھیرہ اس حال میں پہونچاکہ میں پان کھائے ہوئے تھا اور پورا گاؤں روزہ دارتھا، جو ملتا صورتِ سوال بن جاتا ، میں نے بتایا کہ میں عید کی نماز پڑھ کر آرہا ہوں ، یہاں چاند نہیں ہواتھا ، دوسرے دن یہاں عید ہوئی ، میں نے مسلمانوں کی موافقت میں دوبارہ عید کی نماز ادا کی۔
گیارہ بجے کے قریب غازی پور سے ایک صاحب عزیز الحسن صاحب کا خط لے کر آئے ، یہ میرے بزرگ حضرت مولانا محمد اسلم صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند فضل اﷲ صاحب