کافی ہوتا، میں نے تکدر کے ساتھ چند لقمے فروکئے ، اور ہاتھ کھینچ لیا ، مولانا لطف لے لے کر کھاتے رہے اور منہ بھر بھر تعریفیں کرتے رہے ، وہیں مغرب کی نماز پڑھی ، نماز میں بھی وہ شخص شامل نہ ہوا ، اس کا ایک لڑکا شامل ہوا ، اس نے روزہ بھی رکھاتھا، نماز کے بعد لوگ کھانے پر بیٹھے ، میں بھوک کے باوجود نہ کھاسکا ، میں اصرار کررہاتھاکہ جلدی چلیں ، مگر مولانا اس اطمینان سے تھے جیسے یہیں مقیم ہوں ، وہاں سے کسی طرح رخصت ہوئے ، تو ہم لوگ ایک دوسری عمارت میں جو شہر کے اندر تھی لے جائے گئے ، مولانا بتاتے رہے کہ یہ ان کا اپنا مکان ہے ، اس کو انھوں نے ہوٹل میں تبدیل کردیا ہے ، اور جہاں ہم لوگوں نے افطار کیا ہے وہ کرائے کا مکان ہے ، اس مکان کا کرایہ ڈھائی ہزار ماہانہ ہے ، خیال رہے کہ یہ بات ۱۹۷۳ء کی ہے ، ہوٹل کی سیر تفصیل کے ساتھ مولانا نے کی اور مجھے بھی کرائی ۔ ہوٹل میں بہت سے رہائشی کمرے تھے ، ہر کمرے کی آرائش الگ تھی ، رنگ الگ تھا ، کمرے کی دیواروں میں جو رنگ استعمال کیا گیا تھا ، کمرے کی ہر چیز اسی رنگ کی تھی ، چادر ،تکیہ ، ٹونٹیاں ، صابن، صابن دانی ، دروازے ، ان کی سٹکنیاں ، غسل خانے کی بالٹیاں ، غرض سب ایک رنگ کے ، مولانا نے بتایا کہ کمرے کا کرایہ ایک شب کا اسّی روپئے ہے ، ہوٹل میں چائے پانچ روپئے کی ہے ، میں اکتا گیا ، آخر بیزار ہوکر بآواز بلند مولانا سے کہا: وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہِ اَزْوَاجًا مِنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ ( طٰہ: ۱۳۱) ہم نے ان کو جو مختلف انواع واقسام کی دنیاوی خوشنمائیاں دے رکھی ہیں ، جن میں ان کی آزمائش ہے ، ان کی طرف نگاہ بھی نہ اٹھاؤ۔مولانا نے جب میری بیزاری عروج پر دیکھی تب فرمانے لگے کہ جلدی چلنا چاہئے ، ہم لوگ گاڑی پر بیٹھے اور جب مسجد میں پہونچے تو آٹھ رکعتیں تراویح کی ہوچکی تھیں ، مجھے بڑا صدمہ ہوا ، یہ وہ وقت تھا جب حضر میں میری تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوتی تھی ، بالخصوص رمضان میں اس کا بہت اہتمام تھا ، اس نامسعود دعوت کی وجہ سے فرض کی جماعت فوت ہوئی ، آٹھ رکعت تراویح گئی۔ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ، اور طے کرلیا کہ اب ان مولاناکے ساتھ مجھے تعلق رکھنا ہی نہیں ہے ، میں نے ان سے بعد میں صفائی سے کہہ دیا کہ