تملق وخوشامد کی دلیل ہے ، جو طبیعت کا سخت رذیلہ ہے ۔ ہاں جب امیر فقیر کے دروازے پر آگیا تو اس کے ساتھ تواضع اور اکرام کے ساتھ معاملہ کرنا ضروری ہے ، کیونکہ اخلاق عالیہ اسلام میں بے حد ضروری ہے۔
میسور میں یہ مقولہ میرے پیش نظررہا کرتاتھا ، کئی اصحاب ثروت ایسے تھے جو دینی مسائل ومعلومات کے لئے بے تکلف حاضر ہواکرتے تھے ، ان سے محبت ہوگئی تھی ، وہ اگر کبھی دعوت دیتے تو مجھے جانے میں تکلف نہ ہوتا ، لیکن بعض صاحبان ثروت گھر بیٹھے دعوت بھیجتے تو میں ہرگز قبول نہ کرتا۔
رمضان شریف میں ایک پرانے عالم وخطیب جو بہت عرصہ تک میسور کی ایک مسجد میں اما م وخطیب رہ چکے تھے ، اور اب دوسرے شہر میں فیض پہونچارہے تھے ، تشریف لے آئے، میسور کے ایک مالدار ترین آدمی نے ان کی افطار اور کھانے کی دعوت کی ، انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور مجھے بھی اس دعوت میں شامل کرلیا ، اور مجھے اس وقت بتایا جب وہ جانے کے لئے تیار ہورہے تھے ، میں نے معذرت کی مگر انھوں نے ایک نہ سنی ، زبردستی مجھے گاڑی پر بیٹھا لیا ، وہ مجھ سے عمر اور مرتبہ میں بہت بڑے تھے ، اس لئے میں قوت سے ا نکار نہ کرسکا، گاڑی ہم لوگوں کو میسور شہر کے کسی ایک کنارے سرسبز وشاداب علاقے میں لے گئی ، ایک باغ نما احاطہ میں ایک بڑی کوٹھی میں گاڑی داخل ہوئی ، ابھی سورج غروب نہیں ہواتھا ، ایک شخص کو دیکھا کہ کرسی پر بیٹھا ہوا سگریٹ پی رہا ہے ، ان عالم وخطیب صاحب نے بڑھ کر مصافحہ کیا ، میں ٹھٹک گیا ، مولانا نے فرمایا کہ یہی داعی ہیں ، میں سخت مکدر ہوا ، میں نے نہ سلام کیا نہ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا ، اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا ، میں نے کرہاً مصافحہ کرلیا ، میں نے مولانا سے کہا کہ آپ کہاں لے آئے ؟ وہ خوشامدانہ لہجے میں اس شخص کی مالداری کے گن گاتے رہے ، میں خون کے گھونٹ پیتا رہا ، افطاری کا سامان دیکھا تو کہہ سکتا ہوں کہ اتنا پُرتکلف انتظام افطاری کا میں نے اب تک نہیں دیکھا تھا ، انواع واقسام کے کھانے کی چیزیں تھیں ، دوتین آدمیوں کے لئے اتنا سامان تھا جو پچیس تیس آدمیوں کے لئے