ہورہاتھا کہ یہ تینوں میرے ہم عمر ہوں گے ، بہت خاموش ، بہت سنجیدہ ، باتیں بہت غور سے سننے والے ، طالب علمانہ شوخی اور شرارت سے بہت دور ! میں نے تعارف چاہا تو ایک نے اپنا نام رفیع الدین بتایا ، دوسرے نے منیر الدین اور تیسرے نے ولی محمد! یہ تینوں ضلع سنتھال پرگنہ (دُمکا) کے رہنے والے تھے ، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں بتایا ، اس وقت میرے اوپر دینی جوش بہت تھا ، تربیت کا ذوق مجھے بے چین رکھتا تھا ، اس موضوع پر مسلسل گفتگو کرتا رہتا تھا ، اور محسوس کرتا تھا کہ یہ تینوں طلبہ دوسرے طالب علموں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، سننے کے انداز سے ، چہرے بشرے کے اتار چڑھاؤ سے تاثر کی شدت کا انداز ہ ہوتا ۔ ایک روز تینوں میرے پاس سبق کے علاوہ وقت میں آئے، میں نے مزید توجہ کی ، حالات پوچھے ، رفیع الدین نے بتایا کہ ہم لوگ ایسی جگہ سے پڑھنے آئے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد تو خاصی ہے ، لیکن اسلام کا نام ونشان نہ تھا ، بالکل جاہلی ماحول ، مسجد تو ایک ضرور ہے ، مگر نمازیوں سے خالی ! کفر وشرک کی گرم بازاری ہے ، بدعات کا زور ہے ، پڑھا لکھا کوئی نہیں ہے ، اب سے چند سال پہلے ایک مولوی صاحب کمال الدین نامی وہاں تشریف لائے ، انھوں نے بہت محنت کی ، دن رات کوشش کرکے ماحول کو تبدیل کرنا چاہا ، لوگوں کے نام ہندوانہ تھے ، انھوں نے بدلے ، کفر وشرک کی کئی رسمیں تھیں ، بہت مشکلات میں پڑ کر انھوں نے ان رسموں کو توڑا ۔ تعزیہ پرستی زوروں پر تھی اسے انھوں نے بند کرایا ، لیکن انھوں نے عمر کم پائی ، چار سال کام کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ، ہم تینوں کو انھیں نے جان پر کھیل کر گھروالوں کی مخالفت مول لے کر تعلیم کے لئے نکالا، ہم لوگ پہلے دُمکا شہر کے ایک مدرسہ میں رہے ، پھر شیر گھاٹی ضلع گیا کے مدرسے میں پڑھتے رہے ، اب یہاں آگئے ہیں ، مولوی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ، اب ان کی جگہ خالی ہے ،مجھے دلچسپی ہوئی ، میں نے ان کے مزید حالات پوچھے تو معلوم ہوا کہ اس جگہ ہندوانہ تہذیب پورے طور سے مسلط تھی ، نام تک مسلمانوں جیسے نہ تھے ، خود ان تینوں کے نام بھی اسلامی ناموں سے کوئی مناسبت نہ رکھتے تھے ، مولوی صاحب نے ان کے موجودہ نام رکھے تھے ، اس علاقہ میں کام کرنے کے لئے