ہوا۔میں نے آنے کی غرض پوچھی ، بولا کہ طالب علم ہوں ، داخلے کے لئے آیا ہوں ، میرا مکان دربھنگہ ہے ، وہ اپنی ہیئت سے طالب علم نہیں معلوم ہورہا تھا ، میں نے پوچھا کہ تم گھر سے بھاگ کر آئے ہو ، اس نے اقرار کیا اور بتایا کہ میرے گھر کے لوگ بہت غریب ہیں ، مجھے کام پر لگانا چاہتے ہیں اور مجھے پڑھنے کا شوق ہے ، اس لئے بھاگ کر آیا ہوں ، میں نے کہا تم نے بہت دیر کردی ، اب داخلہ بند ہوچکا ہے ، کہنے لگا کہ میں عید کے بعد فوراً گھر سے نکلا تھا ، پیسے جتنے تھے بس کے کرائے میں خرچ ہوگئے ، ٹرین میں بغیر ٹکٹ کے بیٹھ گیا، پکڑا گیا ، اسی میں دیر ہوگئی ۔ مغل سرائے اسٹیشن سے پیدل آرہا ہوں ، میں نے کہا بھوکے بھی ہوگے ، کہاہاں ، کئی وقت سے کھانا نہیں کھایا ۔ میں نے ایک طالب علم کو بلایا اور اس کے حوالے کیا کہ اسے کھانا کھلاؤ ، اس نے اپنا نام محمد زبیر بتایا ، میں نے مدرسہ کے ناظم سے اس کے متعلق بات کی ، انھوں نے داخلہ بند ہوجانے کا عذر کیا ، میں نے کہا اگر یہ طالب علم سال اخیر میں آتا تب بھی اس کا داخلہ کرنا ضروری تھا ، یہاں تو ابھی تعلیم شروع ہوئی ہے ، ناظم صاحب نے منظور کرلیا ، اور اس کا داخلہ ہوگیا۔
کئی سال کے بعد جب میں مدرسہ دینیہ غازی پورمیں مدرس تھا، رمضان کا مہینہ تھا، میں ایک چھوٹے سے حجرے میں بیٹھا تلاوت کررہاتھا کہ کسی نے آہستگی سے دروازہ کھٹکھٹایا ،کھولا تو ایک مولوی صاحب شیروانی پہنے سلام ومصافحہ کرنے لگے ، میں نے تعارف چاہا تو بولے میں محمد زبیر ہوں ، میں پوچھا کون زبیر؟ کہا جامعہ اسلامیہ میں آپ نے میرا داخلہ کرایا تھا ، میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا ، پاؤں پر نگاہ پڑی تو یاد آیا کہ یہ وہی زبیر ہے جو میرے پاس ننگے پیر آیاتھا،اور ایک قدم تھوڑا سا مڑا ہو ا ٹیڑھاتھا ، میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، میں ایک ہی سال جامعہ اسلامیہ میں رہا تھا ، اس کے بعد اس طالب علم سے کوئی ربط نہ تھا ، میں بھول بھی گیا ، آج جب اس نفیس حالت میں دیکھ رہاہوں تو علم کی عظمت کا نور دل پر پھیل رہاتھا۔
اس نے بتایا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں آج کل حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم