میسور میں ملازمت کے وقت میں نے اپنے دل میں یہ بات طے کی تھی ، کہ دینی خدمت جو بھی میسر آئے گی اسے بطور خدمت اور عبادت کے پورا کروں گا ، اسے میں ذریعۂ معاش نہ سمجھوں گا ۔ طالب علمی کے زمانے سے یہ بات دل میں راسخ تھی کہ روزی حق تعالیٰ دیں گے ، میرے ذمہ دین کی خدمت ہے ، روزی کا وعدہ رازق مطلق نے کررکھا ہے ، مجھے یاد ہے کہ جب میں عربی سوم کا طالب علم تھا ، تو مبارکپور کی مضافاتی آبادی اَملومیں اپنے والد کے ایک دوست مولانا محمد ادریس آزادؔ رحمانی علیہ الرحمہ کی زیارت وملاقات کے لئے حاضر ہوا تھا ۔ مولانا اہل حدیث عالم تھے ، شاعری کا ذوق رکھتے تھے ، اسی مناسبت سے والد صاحب سے دوستی تھی ۔ ہمارے گاؤں کی جامع مسجد کی تعمیر نو کے لئے عمومی چندہ ہورہا تھا ، یہ چندہ بذریعہ نغمہ ہوتاتھا ، خوش گلو افراد کی دوپارٹیاں بن گئی تھیں ، ہر پارٹی کو چند شعراء کی سرپرستی حاصل تھی ، یہ حضرات چندہ کے موضوع پر روزانہ تازہ تازہ نظمیں لکھ کر اپنی پارٹی کو دیتے ، وہ لوگ انھیں اجتماعی طور اصحابِ خیر کے دروازوں پر جاکر پڑھتے ، سننے والوں کا ہجوم ہوتا ، ہر روز دوچار گھر منتخب ہوتے ، عشاء کی نماز سے بارہ بجے شب تک یہ سلسلہ چلتا ، چندہ دینے والے پہلے سے تیاری رکھتے ، لوگ اپنے حوصلے سے بڑھ کر چندہ دیتے۔
گانے والی ایک پارٹی کو اس وقت مولاناقاضی اطہر مبارکپوری اور مولانا محمد عثمان صاحب ساحرؔ مبارکپوری علیہما الرحمہ کی سرپرستی حاصل تھی ، یہ دونوں حضرات اسے نظمیں لکھ کر دیتے ۔ دوسری پارٹی نے مولانا ادریس آزاد رحمانی اور میرے والد صاحب محمد شعیب کوثرؔ اعظمی علیہما الرحمہ کے ساتھ وابستگی اختیار کی تھی ۔ اسی مناسبت سے والد صاحب مولاناآزاد رحمانی کا بکثرت تذکرہ کرتے تھے ، اس وقت مولانا موصوف دربھنگہ کے جامعہ احمدیہ سلفیہ میں استاذ تھے ،اور وہاں کسی ’’الہدیٰ ‘‘ نامی پرچہ کے مدیر تھے ۔ مجھے معلوم ہوا کہ مولانا اپنے وطن املو تشریف لائے ہیں تو ان سے ملاقات کاشوق ہوا ، میں حاضر ہوا ، تو بہت اخلاق سے ملے ، بڑی شفقت فرمائی ، تعلیم کے متعلق پوچھتے رہے ، مشورہ دیتے رہے ، آخر میں ایک بات یہ پوچھ لی کہ پڑھنے کے بعد کیا کروگے؟ میں نے عرض کیا ،دین کی خدمت کروں گا ، فرمایا