ہاں ، یہ جذبہ تو اچھا ہے مگرمعاش کے لئے میں پوچھ رہا ہوں ۔ میں نے عرض کیا ، معاش کا وعدہ حق تعالیٰ نے کیا ہے ، اس پر ذرا پھیکے ہوکر وہ بولے ، اس وقت یہ کہہ رہے ہو مگر بعد میں اسی بات پر کیا تم قائم رہ سکوگے ؟ میں خاموش رہ گیا ، مگر میرے دل میں وہی بات جمی رہی جو میں نے عرض کی تھی۔
پھر فارغ ہونے کے بعد جن دنوں میں گھر پر مقیم تھا ، کبھی کبھی والد صاحب سے گفتگو ہوتی ، تو اس میں معاش اور ذریعۂ معاش کا بھی تذکرہ آتا ، میں کہتا کہ روزی رساں اﷲ تعالیٰ ہیں ، اس کے لئے محنت کرنی کیا ضرور ہے؟تو والد صاحب فرماتے کہ یہ تو صحیح ہے، مگر ذریعۂ معاش تو آدمی کو تلاش کرنا ہی پڑتا ہے ، میں عرض کرتا کہ جو خدا معاش دے گا ، کیا وہ ذریعۂ معاش نہ دے گا ، اور یہ واقعہ ہے کہ میرے دل کو معاش اور ذریعۂ معاش کی فکر نے کبھی نہیں دبایا۔ انھیں دنوں میں ایک بار اپنے پیر ومرشد حضرت مولانا منیر الدین صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر تھا ، ان کے یہاں بھی کسی تقریب سے ذریعۂ معاش کا ذکر آیا، میں نے سر جھکا کر عرض کیا کہ اس سلسلے میں مَیں وعدۂ الٰہی پر مطمئن ہوں ، یہ سنتے ہی حضرت کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے،اور بہت تحسین کی اور بہت دعائیں دیں ۔
یہ تفصیل میں نے اس لئے لکھی کہ ملازمت کے سلسلے میں میری سوچ اور میرے فیصلے کا پس منظر سامنے آجائے ۔ جامعہ اسلامیہ کی مدرسی طے ہورہی تھی ، تو صدر وناظم حضرات نے تنخواہ کی بابت کچھ دریافت کیا تھا ، میں نے میسور کی تنخواہ انھیں نہیں بتائی ، صرف اتنا عرض کیا کہ تنخواہ کی مقدار سے میراکوئی تعلق نہیں ، آپ حضرات جو چاہیں مقرر فرمائیں ، میرا کوئی مطالبہ نہیں ہے ، ان حضرات نے بتایا کہ ہمارا مدرسہ گورنمنٹ بورڈ سے ملحق ہے، جزوی طور پر بورڈ کچھ رقم دیتا ہے ، باقی ہم پورا کریں گے ، بورڈ کی منظوری میں ابھی کچھ وقت لگے گا ہماری طرف سے ماہانہ ۱۳۵؍ روپئے آپ کو ملا کریں گے ، میں نے یہ نہیں پوچھا کہ گورنمنٹ کی طرف سے کتنا ملے گا ، کیونکہ یہ سوال میرے موضوع سے خارج تھا ۔
٭٭٭٭٭