پناہ گاہ بنا ، مگر وہ طالب علمی کا دور تھا ۔ اب میں مدرس ہوں گا ، طلبہ مجھے استاذ سمجھیں گے ، مدرسہ کے اہل انتظام مجھے تنخواہ دیں گے ، اس لئے میں ملازم اور ماتحت ہوں گا ، کچھ تقاضے استاذی اور مدرسی کے ہوں گے ،اور کچھ تقاضے ملازمت اور ماتحتی کے ہوں گے ، ان دونوں کو جمع کرنا ہے ، میں غور کرتا رہا کہ میں ان دونوں تقاضوں کو کیونکر بہم کروں گا۔
تعلیم وتعلم کا تجربہ تو عرصہ سے ہورہا تھا ، آغاز تعلیم ہی سے اساتذہ سے سابقہ تھا ، اس تجربہ نے نظری طور پر بہت کچھ سکھا اور سمجھادیا تھا ، کہ استاذ کو کیسا ہونا چاہئے ؟ طالب علموں کے ساتھ اس کا ربط کیونکر ہونا چاہئے؟ اس تعلق میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں ؟ اور کن کن خرابیوں سے بچنا چاہئے؟ میں طالب علم رہ چکاتھا ، اساتذہ کے کیا معاملات پسندیدہ تھے ؟ اور کیا چیزیں گرانی خاطر کا سبب بنتی تھیں ؟ اور ان میں کیا باتیں شریعت اور عقل کی میزان پر پوری اترتی تھیں ؟ اور کن چیزوں پر عقل وشرع کو اعتراض ہوتاتھا؟ ان باتوں کا تجربہ اور شعور زمانۂ طالب علمی میں ایک حد تک ہوچکا تھا ، لیکن ملازمت کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہواتھا ، جن اساتذہ سے میں نے تعلیم حاصل کی تھی ان میں سے بیشتر مدرسہ کے ملازم تھے ، مگر میں نے انھیں کبھی ملازم اور ماتحت ہونے کی حیثیت سے دیکھا ہی نہیں ، وہ استاذ ہیں ، بڑے ہیں بہت بڑے ہیں ، اس حیثیت سے انھیں دیکھتا رہا ، اس بڑی حیثیت کے منافی کوئی چیز ان سے ظاہر ہوتی تو الجھن ضرور ہوتی ، مگر ان کی عظمت کے بارمیں وہ الجھن دفن ہوکر رہ جاتی ، اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ ملازمت میرے لئے بالکل نیا تجربہ تھا ، میرے لئے یہ سوچنا مشکل تھا کہ جن کی ماتحتی میں ملازمت کروں گا ، انھیں راضی کرنے اور خوش رکھنے کے کیا ڈھب ہوں گے ؟ وہ مجھ سے کن باتوں کی توقع رکھیں گے ؟ سن وسال اور علم وفضل کے فرق مراتب کے علاوہ مجھے اور کن کن نزاکتوں کی رعایت کرنی پڑے گی ؟ مجھے کن کن بڑائیوں کے سامنے خود کو چھوٹا محسوس کرنا پڑے گا؟ یہ باتیں اس وقت میرے ذہن میں نہیں آسکی تھیں ، کہیں کہیں اس کی وجہ سے ناگواریوں کا سامنا کرنا پڑا ، اسے ناظرین کہیں کہیں محسوس کریں گے۔