جانے دیجئے، کچھ مصلحت ہے ، میں نے اپنے دل میں یہ مصلحت سوچی تھی کہ میں اپنے گھروالوں کو اور ماحول ومعاشرہ کو مطمئن کردوں کہ اب میری زندگی سفر کے ایک معقول راستے پر آگئی ہے ، ان لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کا نکاح ہوچکا ہے ، میں نے اثبات میں جواب دیا ، تو سب نے اصرار کیا کہ آپ اہلیہ کو ساتھ لیتے آئیں ، کہ دور کی مسافت ہے ، بار بار جانا نہ پڑے ، مسجد کی انتظامیہ نے میری رہائش کے لئے ایک آرام دہ گھر بھی کرایہ پر متعین کرکے اس کی چابی لے لی اور وعدہ لیا کہ عید کے بعد فوراً آجائیے گا۔
میسور والوں نے بڑے اعزازواکرام کے ساتھ مجھے رخصت کیا ، واپسی کے لئے کرایہ اور مصارف سفر کی رقم بھی ساتھ کردی ، اہل میسور پر میری واپسی کا بہت اثر تھا ، خاص طور سے پروفیسر غوث محمد زیادہ متاثر تھے ، میسور کے احباب کے۔ نذیر احمد ، عبد العزیز چاند ، اقبال احمد سیٹھ ، عبد الرحیم ، عبد الرشید صاحبان اور ان کے علاوہ ایک جم غفیر اسٹیشن تک مشایعت کے لئے آیا ، بہت سے وعدوں اور معاہدوں کے درمیان ٹرین میسور کے پلیٹ فارم سے آگے بڑھی، دل میں عزم مصمم تھا کہ عید کے بعد مع اہلیہ فوراً واپس آؤں گا ، اس وقت تک کوئی اولاد نہ تھی۔
رمضان ۱۳۹۲ھ سے دوتین روز قبل میں گھر پہونچ گیا ، گھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، میرے وہ رفقاء جنھوں نے چند ماہ پہلے مجھے محمد آباد اسٹیشن پر بادل ناخواستہ ٹرین پر سوار کرایاتھا اور جو مجھ سے ترجمہ قرآن پڑھاکرتے تھے ، بہت خوش ہوئے ، سب کو اطمینان ہوگیا کہ اب میری زندگی لائن پر آچکی ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ عبادتوں میں ، مسرتوں میں ، وعظ وبیان میں بہت تیزی سے گزر گیا ، عید آگئی ، اب مجھے میسور جانے کی فکر ہوئی ۔ بنارس جاکر ٹکٹ بنوانا ہوگا ، اس وقت کمپیوٹر کا وجود نہ تھا ، میں ۵؍یا ۶؍ شوال کو بنارس گیا ، بنارس میرے لئے اجنبی نہ تھا ، کیونکہ میں طالب علمی کے زمانہ میں جامعہ اسلامیہ بنارس کی ماتحتی میں سرکاری امتحان ’’ مولوی ‘‘ میں