میں یہ سن کر ہکابکا ہوگیا ، جس چیز کو کبھی سوچا بھی نہ تھا ، وہ بات سامنے آرہی ہے ، میرے سامنے اہل میسور کے وعدے ، معاہدے اور محبتیں تھیں ، میں نے معذرت کی ، اور صورت حال انھیں بتائی ، مگر یہ دونوں حضرات مصر رہے ، خاص طور پر حاجی عبد القیوم صاحب زیادہ زور دے رہے تھے ، اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا ، ہم لوگ نماز کے لئے ا ٹھ گئے ، نماز کے بعد حاجی صاحب مجھے الگ لے گئے اور بڑی محبت اور اصرار سے گفتگو کرتے رہے ، میں حیران تھا کہ الٰہی اب کیا کروں ؟ میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آخر آپ حضرات مجھ پر اتنا زور کیوں ڈال رہیں ،میں تو ایسا کوئی متعارف نہیں ہوں ۔
انھوں نے بتایا کہ ہم کو جب مدرسہ ریوڑی تالاب پر لے جانا ہوا ، تو ہمارے صدر مدرس مولانا محمد ادریس صاحب اور عربی کے ایک پرانے استاذ مولاناحبیب الرحمن صاحب جگدیش پوری ( حال استاذ دار العلوم دیوبند ) مستعفی ہوکر چلے گئے ، ہمیں استاذ کی تلاش ہوئی ، تو ہم نے جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے ناظم مولانا عبد الباری صاحب سے درخواست کی کہ وہ کسی استاذ کی نشاندہی کردیں ، انھوں نے آپ کا نام لیا اور یہ بھی بتادیا کہ دیوبند میں ایک حادثے کا اس پر داغ ہے ، لیکن اگر وہ آپ کو مل جائے توبے تکلف رکھ لیجئے ، آپ کے مدرسہ کی رونق بڑھ جائے گی ، اس کی ذہانت وذکاوت اس وقت بھی معروف تھی جب پڑھتا تھا ، اس لئے ہم آپ کے اوپر اصرار کررہے ہیں ۔
میں شش وپنج میں تھا ، ان بزرگوں کا اصرا راور اس پرمیرا انکار! کچھ اچھا نہیں معلوم ہورہا تھا ، وہ رات اضطراب میں گزری ، بالآخر صبح کو میں نے بادل ناخواستہ حامی بھردی ، حافظ عبد الکبیر صاحب نے ٹکٹ واپس کرنے کیلئے لے لئے، اور اس کی رقم مجھے واپس کردی ، میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپس آگیا ، گھر والے خوش ہوئے کہ قریب ہی رہنا ٹھیک ہے ، دوتین روز کے بعد میں تیاری کرکے جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس حاضر ہوگیا۔
٭٭٭٭٭