فراغت کے بعد چھ ماہ کی مدت میں حفظ کی تکمیل کی ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری نے بھی عالم ہونے کے بعد قلیل مدت میں حفظ مکمل کرلیا۔
یہ خاص ان اکابر کا حال ہے ، جن کا کفر ان کے نزدیک ایسا ہے کہ جو انھیں کافر نہ کہے وہ خود بھی کافر ہوجاتا ہے ، سب حافظ قرآن ہیں اور سب کی تلاوت معروف ہے، حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نہایت جید حافظ تھے ، ہرروز تمام مشاغل علمی وتصنیفی اور دن بھر لوگوں کی ملاقات اور ان کی اصلاح وتربیت کے ساتھ روزانہ ایک منزل قرآن کی تلاوت زبانی کیاکرتے تھے ، اور سات دن میں ختم کرتے تھے ، ان کے خلیفہ حضرت مولانا وصی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ بڑھاپے تک روزانہ ایک ختم قرآن زبانی کرلیا کرتے تھے ، علماء دیوبند میں حفاظ قرآن کی تعداد اتنی ہے کہ ان کی گنتی نہ ہوسکے ، اور پھر دیوبندی کہلانے والے عوام میں حفاظ قرآن کا وہ انبوہ گراں ہے کہ مسلمانوں کے کسی طبقے میں بھی اس کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی ، بریلویوں میں تو حفاظ کی تعداد کم ، بہت کم ہے ، فرقہ غیر مقلدین ، جماعت اسلامی میں بھی قرآن کے حافظ اقل قلیل ہیں ۔
علماء دیوبند اور دیوبندی عوام کے ایمان واسلام کے لئے اس سے بڑی شہادت کیا چاہئے ، کہ ان میں حفاظ قرآن کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں شمار نہیں کیا جاسکتا ، کیا اپنی عظیم کتاب کی حفاظت کے لئے اس کے حفظ کے لئے اﷲ نے کافروں کو چن لیا ہے ؟ یہ بات کسی طرح باور کرنے کے لائق نہیں ہے ، اس لئے میسور والے خوب سمجھ لیں کہ ہفتہ بھر جن لوگوں کو انھوں نے ’’ کافر کافر‘‘ سنا ہے ، وہ خالص اہل ایمان ہیں ، اﷲ کے مقبول ومنصور بندے ہیں ، دین اسلام کے خدام ہیں ، نبی اکی محبت ان کی رگوں میں سمائی ہوئی ہے ، اگر وہ مسلمان نہیں تو دنیا میں کہیں مسلمانوں کا وجود نہیں ہے۔
یہ تقریر کچھ اس انداز سے ہوئی کہ عوام کے ذہن نشین ہوگئی ، اور آناًفاناً پورے شہر میسور میں اس کی گونج پھیل گئی، اور ہفتوں اس تقریر کا چرچا رہا۔
پھر آخری جلسہ ۲۶؍ رجب کا دن گزارکر رات میں ہوا ، مجھے وہ جگہ اب یاد نہیں