ہے ، قرآن دین اسلام اور رسول اکرم اکا لازوال معجزہ ہے ، اس کے معجزہ ہونے کے متعدد پہلو ہیں ، اس کی فصاحت وبلاغت ، اس کی بیان کردہ غیب کی خبریں ، اس میں کہیں اختلاف وتناقض کا نہ ہونا ، ان سب کے ساتھ معجزہ ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کے حفظ کی دولت صرف مسلمانوں کو حاصل ہوتی ہے، کافروں کا یہ نصیب نہیں ہے کہ وہ حافظ قرآن ہوسکیں ، خود مسلمان کہلانے والے بعض فرقے جن کا قرآن کریم پر ایمان درست نہیں ہے ، انھیں قرآن حفظ کرنے کی قدرت نہیں ہوتی ، اسی لئے آج تک کوئی شیعہ حافظ قرآن نہیں ہوسکا ہے ، بعض لوگوں نے قرآن کریم حفظ کیا لیکن بعدمیں شیعہ ہوگئے ، تو ساتھ ہی ساتھ حفظ کی دولت سے محروم ہوگئے ، یہ ایسی مسلّم بات ہے کہ اس میں کسی کو مجال اختلاف نہیں ہے، شیعوں کی تاریخ حفاظ کے نام سے خالی ہے۔
اس بات کو ذہن نشین کرلینے کے بعد علماء دیوبند کے حالات پڑھئے ، جاننے والوں سے پوچھئے کہ ان میں کتنے حافظ قرآن تھے ، اور ان لوگوں کے حفظ قرآن کی کیا کیفیت تھی؟ اور کتنی مدت میں ان لوگوں کو یہ دولت عظمیٰ حاصل ہوئی ہے؟
پھر میں نے کہاکہ:
علماء دیوبندکے سرخیل مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ہیں ، اور انھیں کے کفر پر مولانا محمد اسمٰعیل شہید کے بعد سب سے زیادہ زور دیاجاتا ہے ، لیکن یہ سننا چاہئے کہ یہ تینوں حافظ قرآن تھے ،مولانا محمد اسمٰعیل صاحب تو سات سال کی عمر میں حافظ قرآن ہوگئے تھے ، اور شہادت کے وقت تک قرآن کریم تراویح میں سناتے رہے ، اور اﷲ نے ان کی تلاوت میں وہ برکت دی تھی جسے کرامت ہی کہاجاسکتا ہے ، مولاناشہید عصر سے مغرب تک میں پورا قرآن کریم عمدہ تلاوت کے ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے ، ان کے معاصرین میں بکثرت لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔
مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے سفر حج میں پانی کے جہاز پر ایک ماہ کی مدت میں حفظ کی تکمیل کی اور تراویح پڑھائی، حضرت گنگوہیؒ نے طالب علمی سے