اسے اس طرح دہرایا ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ اس سے متاثر اور مشتعل ہے۔
میں ہر تقریر کے آغاز میں سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ الخ کی تلاوت کرتا اور اسی کے دائرے میں سیرت پاک کے مختلف جلوے اجاگر کرتا ، مجھے یاد ہے کہ پہلی تقریر جمعہ کے دن ایک بڑے مجمع کے سامنے جب ہوئی ، تو پورا مجمع وجد میں جھوم رہاتھا ، پھر مسجد کا معمر اور تجربہ کار موذن جس کا جھکاؤ زیادہ تر بریلویت کی طرف تھا ، میرے پاس آکر بے ساختہ بآواز بلند بولا ، آج تو ایسی تقریر ہوئی ہے، کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے طاقت دیتے تو میں اپنے کندھے پر بیٹھا کر آپ کو پورے شہر میں لے جاتا ،اور اعلان کرتا کہ عاشق رسول یہ ہیں ، ان سے ملو۔
اس تقریر کے بعد ۲۶؍رجب تک مسلسل ہر روز ، بلکہ بعض اوقات ایک ایک دن میں کئی کئی وعظ اس آیت کریمہ پر ہوتے۔ اپنی ان تقریروں میں مَیں بغیر نام لئے ہوئے بریلویوں کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دیتا ، چند تقریروں کے بعد عناد وبغض کی جو گرد اڑائی گئی تھی، بیٹھ گئی۔ تبلیغی جماعت والوں کو کئی مسجدوں سے باہر کردیا گیا تھا ، پھر وہ اپنی جگہ لوٹ گئے۔
بریلوی مولوی نے سارا زور اس پر لگایاتھا کہ علماء دیوبند کا فر اور گستاخ رسول ہیں ، پس جو ان لوگوں کو بزرگ عالم بلکہ مسلمان بھی مانتا ہے وہ کافر ہے ، اس لئے تمام دیوبندی کافر ہیں ، میں اپنی تقریروں میں علماء دیوبند کا نام نہ لیتاتھا ، بغیر نام لئے ان کے علوم ومعارف بیان کرتا ،ان کے ایمان کی قوت اور اسلام کی خدمت کی روداد سناتا ، ان کے واقعات دہراتا ، غالباًدوہفتہ کی تقریروں کے بعد حالات معمول پر آگئے ، تب میں نے علماء دیوبند کا نام لینا شروع کیا ، جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے ایک عام فہم بات عوام کے سامنے رکھی ، وہ یہ کہ کفروایمان کے جو معیار علمی ونظری ہیں ، انھیں چھوڑئیے ، ایک موٹی بات جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، بغور سنئے!
’’ مسلمانوں کا اصل سرمایہ اور اصل طرّۂ امتیاز کلام الٰہی یعنی قرآن شریف