مناظرہ سے اباء کرتاتھا ، دیوبند کے حادثے کے بعد میں نے ایک خاموش عہد کیا تھا کہ اﷲ نے توفیق دی ، تو مسلمانوں کے درمیان ہونے والے کسی بھی فتنہ ونزاع سے دامن کشاں گزر جاؤں گا۔ میں جانتاتھا کہ دیوبندی بریلوی مناظروں نے ملت کو فائدہ تو ضرور پہونچایا ہے ، لیکن اس کا ضرر بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ انتشار ، لڑائی ، جھگڑے ، کشمکش اور سر پھٹول کی فضا بنی ہے ، حالانکہ اس وقت میری نوجوانی تھی ، جوش بھی تھا ، بریلویت کے سلسلے میں معلومات بھی تھیں ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانی علیہ الرحمہ کے معرکہ آرا مناظروں کی روداد پڑھ چکا تھا، مبارک پور میں طالب علمی کے زمانے میں مناظرہ کربھی چکا تھا ، بجز اس کے کہ میں بریلوی مولویوں کی طرح بدزبانی ، بہتان طرازی اور گالی گلوج نہیں کرسکتا تھا ، مگر دیوبند کے حادثے نے مجھے ہر قسم کی کشمکش اور نزاع سے یکسو کردیاتھا ، اس وقت میدان مناظرہ میں مولانا نور محمد صاحب ٹانڈوی اور مولانا ارشاد احمد صاحب مبلغ دار العلوم دیوبند جیسے سورما مقابلے کے لئے موجود تھے ، اور میرے احباب نے اصراربھی کیا کہ ان حضرات کو دعوت دی جائے ، مگر میں نے سمجھایا اور صبر واستقامت کی تلقین کی ، نیز یہ کہ یہ صاحب تو چند روز کے بعد چلے جائیں گے ، پھر میرے لئے میدان کھلاہوا ہے ، میں اپنی تقریروں میں مثبت انداز میں ان تمام الزام تراشیوں اور بہتان طرازیوں کا ازالہ کرتا رہوں گا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ جمادی الاخریٰ کا آخری ہفتہ اس ہنگامہ خیزی سے معمور رہا، آخری تاریخوں میں وہ مولوی صاحب ہدیہ نذرانہ وصول کرکے میسور سے چلے گئے ، میری تقریروں کا سلسلہ چل ہی رہاتھا ، رجب کا مہینہ شروع ہوا تو میں نے اپنی تقریروں کا موضوع معراج النبی ا کو بنایا ، اور اس موضوع پر روزانہ تقریریں کرتا رہا ، مسلمانوں کو حضرت رسالت مآب ا کی ذات اقدس سے جو شیفتگی اور وارفتگی ہے ، وہ محتاج بیان نہیں ، بریلوی مولوی عوام کو یہی باور کراکے مشتعل کرتے ہیں کہ علماء دیوبند رسول اکرم اکی شان میں گستاخی کرتے ہیں ، گویہ روئے زمین پر بولے جانے والے جھوٹوں میں ایک بڑا جھوٹ ہے ، مگر اس طبقہ نے اتنا غل مچایا ہے اور