آپ نے خود اپنی زبان سے اپنے آپ کو مولوی کہا ، ایسا کیوں ؟ کہنے لگے یہ کوئی تعظیمی لقب نہیں ہے ، مجھے ’’مولوی‘‘ کی سند حاصل ہے، اس لئے میں نے مولوی کہا، جیسے بی۔اے اور ایم۔اے کی سند ہوتی ہے ، تعظیمی لقب کااستعمال نام کے پہلے ہوتا ہے ، اور سند کااستعمال نام کے بعد ہوتا ہے ، میں خود کو مولوی غوث محمد نہیں کہتا،غوث محمد ( مولوی) کہتاہوں ۔
انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں عربی پڑھاتا ضرور ہوں ، لیکن کسی عربی دینی مدرسہ کا پڑھا ہوا نہیں ، اس لئے مجھے دقت بہت ہوتی ہے ، اگر ایک کتاب مجھے آپ پڑھادیا کریں تو احسان ہوگا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ تدریس کا موقع ملا، لیکن طبیعت ہچکچائی کہ یہ پچاس پچپن سال کے بزرگ اور میں بیس بائیس سال کا نوجوان! مجھے بڑی شرم آئی ، لیکن اس وقت شرم پر حصول سعادت کا جذبہ غالب آیا ۔آٹھ بجے صبح کا وقت مقرر ہوگیا ،وہ آٹھ بجے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کی مرتب کردہ عربی ادب کی کتاب ’’ نخبۃ الادب ‘‘ لے کر آئے ، یہ کتاب میں نے نہ پڑھی تھی نہ دیکھی تھی ، لیکن مبارک پور اور دیوبند میں عربی ادب میں جو محنت میں نے کرلی تھی وہ یہاں کارآمد ہوتی نظر آئی ۔ میسور میں میرے پاس لغت کی کوئی کتاب نہ تھی ، غوث محمد صاحب کے پاس بھی لغت کی کوئی کتاب نہ تھی ، اور یہ کتاب خاصی معیاری تھی ، حصہ نثر میں تو مجھے کوئی دقت نہ تھی ، البتہ عربی نظم اور اشعارسے مجھے مناسبت کم تھی ، اس لئے اس میں دقت کا ندیشہ ہوا ، مگر میں نے اﷲ کا نام لے کر شروع کرادیا ، روزانہ وہ مجھ سے پڑھتے اور پھر جاکر اپنے طلبہ کو پڑھاتے ، دوماہ تک یہ سلسلہ چلا، پھر میری واپسی ہوگئی ، انھوں نے بہت اصرار کیا کہ آپ عید کے بعد فوراً آجائیے گا ، اس کے لئے انھوں نے کرایہ رقم بھی پیش کی ، میں نے معذرت کی ،مگر وہ نہ مانے ، لیکن پھر واپس آنا مقدر نہ تھا ، تفصیل آگے آرہی ہے ۔
غوث محمد صاحب نے بہت محبت کا تعلق رکھا ، ایک شاگرد کی طرح وہ مجھ سے معاملہ کرتے رہے ، اپنے طلبہ کو بھی انھوں نے بتایا کہ اب میں ایک عالم سے کتاب پڑھ کر آتا ہوں تب پڑھا تاہوں ، ان کے تلامذہ بھی بڑی عزت کرتے تھے۔